قدیم ایتھنز کی نجی اور عوامی زندگی

پیریکلیز نے خاص طور پر ایتھنز کی سیاسی اور سماجی تنظیم نو کی اور جمہوری روایات اور اداروں کو روشناس کرایا، جن میں ہر شہری کے فرائض متعین کیے گئے۔

یونانی معاشرے میں انفرادی آزادی پر خاص زور دیا جاتا تھا (پبلک ڈومین)

یونان کی شہری ریاستوں میں اپنے ماحول اور مفادات کے تحت اس کے سیاسی اور سماجی نظام کو منتظم کر کے اس کی اپنی علیحدہ سے شناخت پیدا کی۔

مثلاً ایتھنز کی ریاست جمہوری رہی جبکہ سپارٹا کی ریاست جنگجو تھی اور اپنی برتری کو جنگوں کے ذریعے قائم رکھے ہوئے تھی۔ اس لیے شہری ریاست کا اپنا علیحدہ کردار رہا اور جس نے تاریخی عمل کو متاثر کیا۔

ایتھنز اور سپارٹا کے درمیان پہلی جنگ ہوئی جسے جنگِ پیلوپونیشیا کہا جاتا ہے۔ یہ طویل مدت ہونے کی وجہ سے ایتھنز کے لیے باعث نقصان دہ رہی کیونکہ اس میں اسے شکست ہوئی۔ جنگ کے بعد ایتھنز کو اس بات کا احساس ہوا کہ اس جنگ میں اس کی کیا کمزوریاں تھیں۔

لہٰذا ریاست کے ذمہ داروں جن میں پیریکلیز کا خاص کردار رہا، ایتھنز کی سیاسی اور سماجی تنظیم نو کی اور جمہوری روایات اور اداروں کو روشناس کرایا، جن میں ہر شہری کے فرائض تھے۔ کیونکہ اس عہد میں کوئی مستقل فوج نہیں ہوتی تھی اس لیے ہر شہری کا فرض تھا کہ وہ ریاست کا دفاع کرے اور جنگ میں حصہ لے۔

ریاست کا ہر جمہوری ادارہ اس کی اسمبلی تھی جس کا رکن ہر شہری ہوا کرتا تھا۔ اور اس کا یہ حق تھا کہ وہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر اپنی رائے دے۔ اسمبلی اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرتی تھی۔ جنگ اور امن کے بارے میں فیصلے کرتی تھی۔ اگر کوئی عہددار قوانین کی خلاف ورزی کرتا تھا تو اس کو سزا دی جاتی تھی۔

مثلاً مشہور مورخ تھیوسیڈی ڈیز، جو جنرل تھا، ایک جنگ میں ناکامی کی صورت میں اسے 20 سال کے لیے جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ سقراط کو بھی جلا وطنی کو منتخب کرنے کا حق تھا مگر اس نے اسے قبول نہیں کیا۔

ہر شہری قوانین میں تبدیلی اور نئے قانون کے بارے میں رائے دے سکتا تھا مگر اس کے لیے پہلے اسے اپنی رائے لکھ کر اسے اسمبلی کے دروازے پر آویزاں کرنا ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ اسمبلی کے روسٹرم پر زیتون کی ایک ٹہنی توڑ کر رکھ دیتا تھا۔ اس کے بعد اس کی قرارداد پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا اور ہر رکن آزادی کے ساتھ اپنی رائے دیتا تھا۔

پر شہری کا فرض تھا کہ اسمبلی سے منظور کردہ قانون پر عمل کرے۔ ایتھنز کی ریاست نے ہر شہری کی آزاد رائے کے حق کو تسلیم کیا وہ اس کی اہمیت کو جانتے تھے۔ اس روایت کے باعث وہ سیاسی رہنما کے جھوٹ کو فاش کر سکیں گے۔

Barrington Moore نے اپنی کتاب Privacy: studies in Social and Cultural History میں ایتھنز کی پرائیویٹ اور پبلک زندگی کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ایتھنز کے ہر شہری کا حق تھا کہ وہ اپنی پرائیویٹ زندگی میں کسی کو بھی مداخلت نہ کرنے دے۔

حکومت کے عہداداروں کو اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی کے گھر میں داخل ہو کر چھان بین کریں اور گھر والوں کو پریشان کریں۔ ہر شہری کا گھر اس کا قلعہ ہوا کرتا تھا جہاں وہ ہر طریقے سے محفوظ ہوا کرتا تھا۔ لیکن اس کے لیے یہ بھی لازمی تھا کہ وہ شہر کی سیاسی اور سماجی سگرمیوں میں حصہ لے۔

شہر کو جرائم سے پاک رکھنے اور نجی جائداد کی حفاظت کے لیے چوری، ڈاکہ زنی، جال اور فریب کے لیے سخت سزائیں تھیں۔ قتل کے ملظم کے لئے ذاتی انتقام نھیں لیا جاتا تھا۔ بلکہ قاتل کو ریاست کے حوالے کر دیا جاتا تھا تاکہ اس پر مقدمہ چلا کر اس کے جرم کو ثابت کر کے اسے سزا دی جا سکے۔

ریاست مجرموں کو شہر کے امن و امان کے لیے خطرناک سمجھتی تھی۔ کیونکہ اسکا خیال یہ تھا کہ ان کی موجودگی شہری زندگی کو متاثر کرے گی لہذا ان کا خاتمہ ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہر میں فلسفیوں، ادیبوں اور دانشوروں کی مختلف محفلیں ہوتی تھیں۔ جس میں وہ آزادی کے ساتھ شہر کی سیاست پر گفتگو کرتے تھے۔ ایسی محفل کو ’سپوزیم‘ کہا جاتا تھا۔ اس میں باہر سے آنے والے دانشور بھی شریک ہوتے تھے۔ سقراط کو خاص طور سے مدعو کیا جاتا تھا، تاکہ وہ سوفسطائیوں اور دیگر فلسفیوں سے بحث کریں۔ یہ بحث و مباحثہ رات بھر جاری رہتا تھا۔

ایتھنز کے فلسفیوں کے علاوہ جن میں سقراط، افلاطون اور ارستو شامل تھے۔ اس کے ڈرامہ نگار بھی اپنے ڈراموں کے باعث جو کبھی کبھی شہر میں ہوا کرتے تھے، عوام میں بے حد مقبول تھے۔ اور ان ڈراموں کا انعقاد مختلف تہواروں پر سٹیج کیا کرتے تھے۔

ان ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ شہر کے نظم و ضبط کو قائم رکھنے کے لیے نئے قوانین بنائے جاتے رہے۔ پہلا قانون دان جو اپنی سخت سزاؤں کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس نے تقریباً جرم کی سزا موت رکھی ہوئی تھی۔ لیکن چار صدی ق م میں ایک دوسرے قانون دان سولون نے ان قوانین میں ترمیم کی اور ایتھنز کی طبقاتی کشمکش جو امیر اور غریب کے درمیان تھی اسے کم کیا۔

ایتھنز میں امرا کا طبقہ بڑا خوش حال تھا۔ مگر یہ غریبوں کی مدد کرتے تھے اور ان کے دو وقت کھانے کا انتظام کرتے تھے۔

سقراط نے اپنے مقدمہ میں جیوری سے اپیل کی تھی کہ ان کی خدمات کے پیش نظر انہیں ریاست کے کچن سے دو وقت کا کھانا مفت دیا جائے جس پر جیوری ناراض ہو گئی اور اس کی اپیل کو رد کر دیا گیا۔

ایتھنز کی ریاست میں عورتوں، غلاموں اور غیر ملکی لوگوں کو حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ عدالت مقدموں میں مجرموں سے اعتراف کرانے کے لیے انہیں کوئی اذیت نہیں دے سکتی تھی۔ لیکن غلاموں کو اذیت دے کر ان سے اعتراف کرایا جاتا تھا کیونکہ تصور یہ تھا کہ غلام آزاد نہیں ہیں اور وہ اپنے مالک کے خلاف کوئی بیان نہیں دیں گے۔

ایتھنز کی شہری ریاست، اس کی جمہوریت، اس کے قوانین اور آزادی رائے کے بارے میں اس کی پالیسی ان سب نے مل کر یورپ میں جمہوریت کے ادارے کو روشناس کرایا جو اس کی ترقی کا سبب بنا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ