امریکہ میں غربت کی تاریخ

انگلستان کی طرح امریکہ نے بھی Poor law کا نفاذ کیا تھا۔ اس قانون کے تحت غریبوں کے لیے ورک ہاؤسز ہوا کرتے تھے، جہاں ان سے کام کروایا جاتا تھا اور اس کے عوض انہیں کھانا ملتا تھا۔

امریکی مصور ہینری ٹینر کی ایک پینٹنگ جس میں ایک سیاہ فام باپ بیٹے کو کھانے سے پہلے دعا مانگتے دکھایا گیا ہے (پبلک ڈومین)

سرمایہ داری کو اسی وقت منافع ہوتا ہے جب معاشرے میں غربت ہو۔ سرمایہ دارانہ نظام میں غربت کو ختم نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اسے باقی رکھا جا سکتا ہے تاکہ سستی مزدوری مل سکے اور غریب اپنی محنت کو سرمایہ دار کی قیمت پر فروخت کر سکیں۔

امریکہ کے شہر نیویارک میں آزادی کے مجسمے کے ساتھ ایک میوزیم ہے جس میں ابتدائی آنے والوں کے فوٹوز اور حالات درج ہیں۔

اس میں ایک عورت کا یہ بیان بھی ہے کہ جب ہم لاطینی امریکہ میں اپنے ملک میں تھے تو شہرت یہ تھی کہ امریکہ کے فٹ پاتھ سونے کے ہیں۔ جب ہم یہاں پر آئے تو دیکھا کہ یہاں تو فٹ پاتھ ہی نہیں اور پھر پتہ چلا کہ ان فٹ پاتھوں کو ہم ہی نے بنانا ہے۔

امریکہ میں ہر دور میں نئے آنے والے روزگار کے متلاشی ہوتے تھے۔ ان نئے آنے والوں میں مسیحی بھی ہوتے تھے جو پناہ کی غرض سے یہاں آئے تھے۔ غریب مزدور اور بےگھر بھی ہوتے تھے جنہیں یہاں لا کر کھیتوں میں کام کروایا جاتا تھا۔

افریقی غلاموں کی بھی بڑی تعداد تھی جو کپاس کے کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ وہ افراد بھی تھے کہ جنہوں نے نئے تجربات کر کے سرمایہ حاصل کیا اور بڑی بڑی فیکٹریوں کے مالک بنے، لیکن یورپ سے آنے والوں کی بڑی تعداد غربت میں رہی۔

امریکہ کے شہروں میں ان کی رہائش پر پابندی تھی، اس لیے یہ شہر شہر پھرتے تھے اور کسی ایک جگہ انہیں پناہ مل جاتی تھی۔ شہروں کی رہائش گاہوں میں امیر اور غریب کا فرق تھا۔ غربت کو ختم کرنے کے بجائے حکومت کی جانب سے انہیں تھوڑی بہت مدد ملتی تھی تاکہ ان کا گزارا ہو سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انگلستان کی طرح امریکہ نے بھی Poor law کا نفاذ کیا تھا۔ اس قانون کے تحت غریبوں کے لیے ورک ہاؤسز ہوا کرتے تھے، جہاں ان سے کام کروایا جاتا تھا اور اس کے عوض انہیں کھانا ملتا تھا، لیکن ورک ہاؤس کی حالت اتنی خراب ہوتی تھی کہ لوگ وہاں سے فرار ہو جاتے تھے۔

دوسری صورت یہ تھی کہ غریبوں کے لیے خیراتی مکانات ہوتے تھے۔ وہاں یہ وقتی طور پر رہتے تھے اور پھر کام کی تلاش میں نکل جاتے تھے۔ بے روزگاری کی وجہ سے غریب نوجوانوں کی بڑی تعداد گاؤں اور دیہات سے شہروں میں آ جاتی تھی، جہاں ان کے لیے رہائش اختیار کرنا اور محنت مزدوری کرنا بہت مشکل تھا۔

غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے غریبوں کے خاندان بھی متاثر ہوئے۔ طلاقیں زیادہ ہونے لگیں اور بعض حالات میں شوہر بیوی بچوں کو چھوڑ کر غائب ہو جاتا تھا۔ اس وجہ سے عورتوں میں جنسی بے راہ روی پھیلی اور خاندان کی روایتیں ایک ایک کر کے ختم ہوتی گئیں۔

اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ بوڑھے ماں باپ کو اولاد نے یا تو گھر سے نکال دیا اور وہ پناہ کی تلاش میں رشتہ داروں کی طرف جاتے رہے اور کسی نے ان کو قبول نہیں کیا۔ آخر میں وہ خیراتی گھروں اور ہسپتالوں میں بیمار ہو کر رہے اور بے بسی کے عالم میں وفات پائی۔

غربت کی وجہ سے جب کوئی خاندان اپنے بچوں کی پرورش نہیں کر پاتا تھا تو وہ انہیں کسی جاگیردار کے حوالے کر دیتا تھا، جو ان بچوں سے کھیتوں میں کام کرواتا تھا۔ بالغ ہونے کے بعد یہ کھیت چھوڑ کر مزدوری یا کام کی تلاش کے لیے آوارہ گردی کرتے تھے۔ اس لیے یہ نہ تو تعلیم حاصل کرتے اور نہ کوئی ہنر سیکھتے۔

امریکہ میں اس وقت مزید مسائل پیدا ہوئے جب 1840 سے 1849 تک آئرلینڈ میں آلوؤں کا قحط پڑا اور وہاں کھانے کو کچھ نہیں رہا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے امریکہ ہجرت کی، لیکن جب یہ امریکہ پہنچے تو ان کی کوئی پذیرائی نہیں ہوئی، بلکہ یہ امریکی معاشرے پر بوجھ بن گئے۔

امریکہ میں دفتروں اور دکانوں کے باہر یہ لکھا ہوتا تھا کہ آئرش یہاں ملازمت کے لیے درخواست نہ دیں۔ ان بے سر و سامان آئرشوں نے غربت، مفلسی اور نفرتوں کے درمیان زندگی گزار کر ایک طویل عرصے بعد اپنی سماجی اور معاشی حالت کو بہتر کیا۔

آنے والے پناہ گزینوں میں دوسرا بڑا گروپ چینیوں کا تھا۔ چونکہ یہ سفید فام نسل نہیں تھے، اس لیے ان کے ساتھ نسلی تعصب بڑھتا گیا، لیکن انہوں نے سستی مزدوری پر اور محنت کے ساتھ امریکہ میں ریلوے کی پٹریوں کو بچھایا اور خود غربت کی حالت میں رہے۔

یہاں جاپانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد آئی جو کھیتی باڑی کرتے تھے۔ جب دوسری عالمی جنگ میں جاپان نے امریکہ کی مخالفت کی تو امریکی حکومت نے اپنے جاپانی شہریوں کو کیمپوں میں قید کر دیا اور جنگ کے بعد انہیں رہائی ملی۔

امریکہ نے اپنے شہریوں کی غربت کو چھپایا اور صرف اپنی طاقت اور دولت کا اظہار کر کے دنیا کو متاثر کیا۔

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ