تھارو مارو ایک جندڑی آگ لاواں جدائیاں کھوں: گوجری معدومیت کا شکار

گوجری زبان لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف بولی جانے والی بڑی زبان ہے لیکن نوجوان نسل میں اس زبان کو بولنے والوں میں کمی آرہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرکاری نصاب ہے۔

کشمیر میں بولی جانے والی گوجری زبان، جس کی مٹھاس اور چاشنی لفظوں سے ٹپکتی ہے، اب پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سمیت پورے خطہ کشمیر میں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نوجوان نسل کا اس زبان کو عام طور پر نہ بولنا اور نصابی سرگرمیوں سے اس کا اخراج ہے۔

اگر پورے خطہ کشمیر کی بات کی جائے تو گوجری زبان وہاں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی 2011 کی مردم شماری کے مطابق گوجری (گوجری/گجری) کو ایک علیحدہ زبان کے طور پر 1,093,852 افراد بولتے ہیں، جو کہ اس طرف کی مجموعی آبادی کا تقریباً 8.72٪ بنتا ہے۔

یہ کشمیری اور ڈوگری کے بعد تیسری بڑی زبان ہے۔ پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور دیگر صوبوں کی سرکاری مردم شماری کے اعدادوشمار میں گوجری کا واضح حوالہ نہیں ملتا، تاہم محتاط اندازے کے مطابق یہاں گوجری بولنے والے لوگ تقریباً 25 سے 30 لاکھ ہیں۔ اگر اس زبان سے جڑے گجر قبائل کی بات کی جائے تو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں ان کی تعداد تقریباً 15 سے 20 لاکھ جبکہ پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر میں 2017 کے سروے کے مطابق تقریباً 8 لاکھ ہے۔ یوں دونوں جانب لاکھوں افراد گوجری زبان سے منسلک ہیں۔

تاہم پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دیہاتی علاقوں (جہاں گجر قبائل کی تعداد زیادہ ہے) کے سوا یہ زبان بہت کم بولی جا رہی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد میں بھی مسلسل کمی آرہی ہے۔ گجر برادری سے تعلق رکھنے والے چوہدری نصیرالدین اس حوالے سے کہتے ہیں:

’علاقائی زبانیں کسی بھی ریاست کی پہچان ہوتی ہیں۔ اگر زبانیں ختم ہو جائیں گی تو ریاست کی پہچان بھی ختم ہو جائے گی۔ کشمیر میں گوجری زبان تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ دیہاتی علاقوں میں خاصی مقدار میں بولی جاتی ہے لیکن شہری علاقوں میں اس کا استعمال کم ہے۔ حکومت کو گوجری زبان کے فروغ کے لیے توجہ دینی چاہیے۔ قائم مقام صدر آزاد کشمیر کی جانب سے علاقائی زبانوں کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے کمیٹی قائم کی گئی تھی لیکن اس کا کام ادھورا ہے۔ حکومتوں کو یہ کام مکمل کر کے اس زبان کو نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔‘

گجر برادری سے تعلق رکھنے والے چوہدری امتیاز اس زبان کو درپیش خطرات کے بارے میں کہتے ہیں:

’یہ حقیقت ہے کہ گوجری زبان لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف بولی جانے والی بڑی زبان ہے لیکن نوجوان نسل میں اس زبان کو بولنے والوں میں کمی آرہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرکاری نصاب ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام سکولوں میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا ہے، جس سے بچے صرف اردو بول اور سمجھ رہے ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ اب گوجری زبان کو نصاب میں شامل کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ اس سے نہ صرف اس زبان کے فروغ میں مدد ملے گی بلکہ اس کے بولنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔‘

پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت اس زبان کے تحفظ اور فروغ کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ اس سوال پر انڈپینڈنٹ اردو نے قائم مقام صدر اور موجودہ سپیکر اسمبلی چوہدری لطیف اکبر سے بات کی، جو خود بھی گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا:

’یہ تاثر درست نہیں کہ نوجوان گوجری زبان نہیں بولتے۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب یہ زبان بڑی تعداد میں بولی جاتی ہے۔ میرے نزدیک اس کے کم ہونے کی ایک بڑی وجہ کراس میرج ہے۔ جب کوئی خاتون دوسری برادری سے بیاہ کر آتی ہے اور اس کی مادری زبان گوجری نہیں ہوتی تو وہاں زبان کا ڈیڈ لاک ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی زبان بولتی ہے اور بچے بھی وہی زبان سیکھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی تمام مادری زبانوں مثلاً کشمیری، ڈوگری، پہاڑی، شینا اور دیگر کا تحفظ کرنا چاہیے۔ میں نے بحیثیت قائم مقام صدر ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مادری زبانوں کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے فریم ورک تیار کیا جائے۔ ہمارے پاس کشمیری اور گوجری ایسی زبانیں ہیں جنہیں فوری طور پر نصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی لغات بھی موجود ہیں۔ اب میں کوشش کر رہا ہوں کہ اس معاملے کو جلد یکسو کر کے عملی جامہ پہنایا جائے۔‘

اس حوالے سے ماہر لسانیات خواجہ رحمان کہتے ہیں:

’کشمیر کی بیشتر مقامی زبانیں معدوم ہو چکی ہیں یا معدومیت کے قریب ہیں۔ کچھ زبانیں تو تقریباً ختم ہو گئی ہیں۔ وادی نیلم میں کنڈل شاہی زبان بولنے والے اب سو سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ گوجری بھی اسی خطرے سے دوچار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی زبان کو پسماندگی کی علامت سمجھ کر اپنے بچوں کو نہیں سکھاتے۔ وہ ایسی زبان اپناتے ہیں جو زیادہ بولی جاتی ہے یا اعلیٰ سمجھی جاتی ہے۔ لیکن یہ رویہ نقصان دہ ہے کیونکہ اپنی زبان اور کلچر چھوڑنے سے نئی نسل اپنی پہچان کھو دیتی ہے۔ دنیا میں کئی مثالیں ہیں جہاں ختم ہو چکی زبانوں کو پالیسی کے ذریعے دوبارہ زندہ کیا گیا ہے۔ یہی کام یہاں بھی ممکن ہے۔‘

گوجری زبان، جو لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب لاکھوں لوگ بولتے ہیں، کے تحفظ کے لیے اسے نصاب اور تعلیمی اداروں میں شامل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ زبان نہ صرف ایک وسیع ثقافتی ورثے کی نمائندہ ہے بلکہ ایک بڑی آبادی کی پہچان بھی ہے۔ اسی لیے ثقافتی ادارے، ماہرین اور کمیونٹی لیڈرز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ گوجری کو زبانی روایت تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے نصاب، ثقافت اور انتظامی سطح پر فروغ دے کر معدومیت کے خطرے سے بچایا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ