انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’درد شینا‘ کے ورثے کو بچانے کی منفرد کوشش

درد شینا کمیونٹی گلگت کے علاقے سے اپنی اصل کا پتہ دیتی ہے اور اس وقت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گریز، تلیل اور دراس کے علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شمال میں واقع وادی گریز اپنی قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ منفرد ’درد شینا‘ ثقافت کے لیے بھی مشہور ہے۔ مقامی رہائشی بشیر احمد ٹیرو نے اس ثقافت کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی ہوئی ہے۔

انہوں نے اپنے گھر کو ایک چھوٹے سے میوزیم میں تبدیل کر دیا ہے، جو ’درد شنا‘ قبیلے کے طرز زندگی، روایات اور تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔

درد شینا کمیونٹی گلگت کے علاقے سے اپنی اصل کا پتہ دیتی ہے اور اس وقت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گریز، تلیل اور دراس کے علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق گریز علاقے کی کل آبادی 48 ہزار کے قریب ہے۔ 16ویں صدی کے وسط میں چک خاندان نے جو اس برادری سے نکلا تھا کشمیر پر 25 سال حکومت کی تھی۔

سنہ 2020 میں کووڈ-19 کی وبا کے دوران جب زندگی ٹھپ ہو گئی تو بشیر احمد ٹیرو نے اپنے سفر کے دوران اس ثقافت کو محفوظ رکھنے کی پہل کی۔ ایک ہیلتھ ورکر کے طور پر وہ وادی کے دور دراز علاقوں میں ویکسینیشن کے لیے جاتے تھے اور واپسی پر درد شینا ثقافت سے وابستہ پرانی اشیا اکٹھا کرتے تھے۔

بشیر احمد ٹیرو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ والدہ نے انہیں 75 نوادرات تحفے میں دیں، جو انہیں اپنے آباؤ اجداد کی زندگی کی یاد دلاتی ہیں۔ ان میں پُرانے زیورات، برتن، جوتے، کپڑے وغیرہ تھے۔

’مجھے یاد ہے، ماں نے کہا تھا کہ ان چیزوں کو محفوظ رکھیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہماری کمیونٹی اور ہمارے طرزِ زندگی کی یاد دلاتی تھیں۔ ان کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان چیزوں کو محفوظ رکھا جائے اور لوگوں کو دکھایا جائے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی ثقافتی جڑوں کو سمجھ سکیں۔

’تین سالوں کے دوران میں نے 457 نوادرات اکٹھے کیے، جن میں 200 سالہ شادی کا فیرن اور ایک 107 سالہ لکڑی کے گھوڑے کی زین شامل ہے۔‘

40 سالہ بشیر احمد کے گھر میں 450 سے زائد پُرانی چیزیں محفوظ ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔

میوزیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں روایتی ملبوسات اور زیورات ہیں۔ ان میں خواتین کے زیورات، شادی کے فیرن، اونی کپڑے اور سر ڈھانپنے والے سکارف شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرے حصے میں روزمرہ کی زندگی اور کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والے آلات ہیں۔ ان میں لکڑی اور گھاس سے بنے جوتے اور چپل، باورچی خانے کے برتن، گھوڑے کے لیے 107 سال پرانی لکڑی کی زین، کاشتکاری کے اوزار اور لکڑی کا ایک واشر شامل ہے، جس میں کپڑوں کو پاؤں تلے روند کر دھویا جاتا تھا۔

’میں نے انٹرنیٹ کا سہارا لیا۔ میں نے فیس بُک پر تصویریں اپ لوڈ کیں اور لوگ مجھ تک پہنچے۔ بعض اوقات لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی ثقافت کا ایک حصہ محفوظ ہو، جیسا کہ میری والدہ چاہتی تھیں۔ سینکڑوں مزید اشیا پائپ لائن میں ہیں اور میں نے ان کی ریکارڈنگ اور کیٹلاگ بھی شروع کر دی۔‘

2021 سے اب تک چار لاکھ سے زیادہ سیاح وادی گریز کا دورہ کر چکے ہیں۔

بشیر کا عجائب گھر ان سیاحوں کے لیے خاص توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

لوگ یہاں نہ صرف درد شینا ثقافت کو قریب سے دیکھنے آتے ہیں بلکہ روایتی طرز زندگی کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ اس میوزیم نے سیاحت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے ثقافتی ورثے کو ایک نئی شناخت دی ہے۔

بقول بشیر: ’میں چاہتا ہوں کہ کم از کم آنے والی نسلوں کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم پہلے کیسے رہتے تھے اور ہمیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ میں اپنے گھر میں تبدیل ہونے والے میوزیم کو مزید خوبصورت بناؤں گا تاکہ سیاح اسے بہتر طریقے سے دیکھ سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا