ہنزہ سے کشمیر تک: بروشو برادری کی 1000 سالہ میراث

ماہر لسانیات بروشاسکی کو ایک علیحدہ زبان مانتے ہیں، یعنی دنیا کی کسی دوسری زبان سے اس کا کوئی معلوم تعلق نہیں ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بروشو برادری کی جڑیں پاکستان کے موجودہ گلگت بلتستان میں ہنزہ اور نگر کی شاہی ریاستوں سے ملتی ہیں۔ اس برادری کو بوتراج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

1888 میں، دو شاہی خاندانوں کے افراد ڈوگرہ جنگ کے دوران انگریزوں کے ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے بعد اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

شاہی اولاد، خاص طور پر رانو، باداتی اور ہنزیہ خاندانوں سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے سری نگر میں ہجرت کرگئے۔

آج وہ بنیادی طور پر بوتراج محلہ، ہری پربت، سری نگر کے قریب رہتے ہیں اور ایک چھوٹی سی آبادی کا حصہ ہیں۔

انہوں نے اپنی زبان، رسم و رواج اور تاریخ کے ذریعے اپنی منفرد شناخت کو محفوظ رکھا ہے۔

سب سے اہم بات ان کی مادری زبان بروشاسکی، جسے کشمیر میں صرف 350 اور گلگت بلتستان میں تقریباً ایک لاکھ لوگ بولتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہر لسانیات بروشاسکی کو ایک علیحدہ زبان مانتے ہیں، یعنی دنیا کی کسی دوسری زبان سے اس کا کوئی معروف تعلق نہیں ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کمیونٹی کی قدیم ترین حکمران شاخوں میں سے ایک، رانو خاندان کے ایک سینیئر رکن راجہ اشرف علی خان کہتے ہیں کہ ’ہماری ثقافت، رسم و رواج، روایات، شادی اور موت کی رسومات بالکل مختلف ہیں۔

’کئی خاندانوں نے حکومت کی، لیکن رانو خاندان نے سب سے طویل حکومت کی اور ڈوگرہ جنگ کے دوران سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔

’جنگ کے دوران رانو خاندان کے ارکان، جیسے مبارک شاہ، کو جیل میں ڈال دیا گیا، جبکہ دیگر، راجہ اظہر خان کی طرح، چین بھاگ گئے اور بعد میں فوجوں کے ساتھ واپس آگئے۔ 1891 میں دونوں لیڈروں کو کشمیر لایا گیا۔ کشمیر کے مہاراجہ نے انہیں زمین دی، جہاں ان کی اولادیں 150 سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں۔ کمیونٹی سات ذیلی شاخوں میں تقسیم ہو چکی ہے- یاسینی، ہنزئی، رانو، بداتی، نگری، داریلی اور اشکومان۔‘

راجہ اشرف علی خان کے مطابق ان میں سے تین کاٹھی دروازہ، سری نگر 9انڈیا کے میر انتظام کشمیر) میں رہتے ہیں اور باقی چار ابھی تک گلگت، بلتستان، یاسین، نلتر اور اسکومان میں ہیں۔

رانو کا خاندانی نسب:

  1. راجہ عثمان بیگ رانو
  2. راجہ ملک جمشید بیگ رانو
  3. راجہ عنایت بیگ رانو
  4. راجہ کملا بیگ
  5. راجہ عثمان بیگ گنبد رانو
  6. راجہ عباس علی بیگ رانو
  7. راجہ عنایت البیغ رانو
  8. شاہ مراد بیگ رانو
  9. شاہ رستم بیگ رانو
  10. شاہ اکبر علی بیگ رانو

راجہ اشرف علی خان بتاتے ہیں کہ ’ہماری زبان سے کوئی مماثلت نہیں ہے، یہاں تک کہ کوئی بہن یا پروٹو لینگویج بھی نہیں۔ یہ ایک مکمل طور پر الگ تھلگ زبان ہے، جسے تنہائی کی زبان کہا جاتا ہے۔

’کشمیر میں، رانو، براتی، اور ہنزیہ خاندان تین مقامی شاخوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جہاں رانو اپنی طویل حکمرانی کے لیے جانی جاتی ہے، بداتی کی نمائندگی راجہ اظہر خان کرتے ہیں اور ہنزیہ کی نمائندگی راجہ محبوب علی خان کرتے ہیں۔‘

ان خاندانوں نے مل کر ایک ہزار سال پرانے ورثے کو زندہ رکھا ہے، جو زبان، جشن منانے کے انداز اور رسومات میں ارد گرد کی تمام برادریوں سے مختلف ہے۔

راجہ اشرف کہتے ہیں کہ ’بعض اوقات حکومت کو ثقافت کو بچانے کے لیے بڑے اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ صرف چند بولنے والے رہ گئے ہیں اور اسے ابھی محفوظ کیا جانا چاہیے۔‘

سوشل میڈیا کی بدولت بروشو کمیونٹی کے بارے میں بیداری بڑھ رہی ہے۔ تاہم، جدید تعلیم اور طرز زندگی نوجوان نسل کو انگریزی، اردو اور کشمیری کی طرف کھینچ رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی مادری زبان کی بقا کے بارے میں تشویش پیدا ہو رہی ہے۔

’جب ہم بروشاسکی بولتے ہیں تو ہمیں فخر محسوس ہوتا ہے۔ چاہے وہ محرم کے دوران ہو یا شادی کی تقریب۔ ہم نے حکومت سے سکول کی کتابوں میں ہماری ایک ہزار سال پرانی کمیونٹی کے بارے میں ایک باب بھی شامل کرنے کو کہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق