مقامی رہائشیوں نے بتایا ہے کہ شمشال پامیر کی بلند پہاڑی چراگاہ میں پراسرار بیماری پھوٹنے کے بعد 100 سے زائد یاک موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق حکام نے صورت حال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ امدادی کارروائی کے لیے ایک طبی ٹیم روانہ کر دی گئی ہے۔
سطحِ سمندر سے 3100 میٹر بلندی پر واقع شمشال، پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ کی سب سے بلند آبادی ہے۔ یہ چین کی سرحد سے پہلے آخری گاؤں ہے۔
اس وادی میں مقامی نمائندہ تنظیم شمشال نیچر ٹرسٹ (ایس این ٹی) کے جنرل سیکرٹری اعظم خان نے عرب نیوز سے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’شمشال کی چراگاہ میں بیماری پھیلی ہوئی ہے اور اب تک 100 سے زائد یاک مر چکے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بہت سے یاک بیمار ہیں۔ ہم کسانوں کو شدید مالی نقصان کا سامنا ہے۔ میرے دو نو عمر یاک، جن کی مالیت تقریباً چار لاکھ روپے تھی، بھی اس بیماری کے باعث جان سے گئے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وادی شمال میں 1600 سے زائد افراد آباد ہیں۔ سیاحت سے اور مویشی پال کر ہم گزر بسر کرتے ہیں۔ یاک پالنا ہمارے گاؤں کے لوگوں کا پسندیدہ اور منافع بخش شوق ہے۔‘
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جانوروں کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وادی کے ایک اور کسان نعمت کریم نے بتایا کہ ’بیماری کے باعث اس کے تین یاک مر چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’زراعت اور مویشی بانی ہمارا پیشہ ہے۔ میرے پانچ یاک تھے، جن میں سے تین مر چکے ہیں۔ یہ ایک مالی دھچکہ ہے۔'
ہنزہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر خزیمہ انور نے اس صورت حال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں ایک ویٹنری میڈیکل ٹیم روانہ کر دی گئی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق: ’ہماری ٹیم شمشال کی چراگاہ کی جانب روانہ ہو چکی ہے۔ وہ بیماری کی تشخیص کرے گی اور جانوروں کا علاج کرے گی۔ جب طبی ٹیم واپس آئے گی تو ہم صورت حال کی بہتر وضاحت کر سکیں گے۔‘
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے گلگت بلتستان لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر شہزاد عارف نے بتایا کہ ٹیم کو شمشال کی چراگاہ تک پہنچنے میں کم از کم تین دن لگیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں پانچ مئی کو مقامی برادری سے بلند پہاڑی چراگاہ میں یاک کے مرنے کی اطلاع ملی تو ہم نے ایک ٹیم تشکیل دی اور اگلے دن انہیں ضروری ادویات کے ساتھ وہاں روانہ کر دیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری معلومات کے مطابق وادی میں اب تک 108 یاک مر چکے ہیں جب کہ 80 بیمار ہیں۔‘
انہوں نے بیماری کے بارے میں قیاس آرائی سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیم ہی زیادہ درست معلومات فراہم کرے گی۔
پبلک سکول سکردو کے شعبہ حیوانیات کے سربراہ شکور علی نے عرب نیوز کو بتایا: ’یاک گلگت بلتستان کے قراقرم-ہمالیہ کے پہاڑی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یاک کو بجا طور پر جانوروں کا ناریل کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ دودھ اور گوشت کی صورت میں خوراک فراہم کرتا ہے۔ اس کی کھال اور اون سے لباس بنتا ہے اور اس کے بالوں سے تیار کیے گئے خیمے رہائش کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یاک کے جسم کا تقریباً ہر حصہ ثقافتی، معاشی، طبی اور مذہبی اہمیت رکھتا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ یاک کے بغیر وادی شمشال کے چرواہوں کو روزگار کے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘