پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ذمہ دار وفاقی ادارے نیشنل ڈیساسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے کہا ہے کہ ’ہمارے پاس ایسے ڈرونز ہیں جو 100 کلو تک سامان لے جا سکتے ہیں۔‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں چیئرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ ان کا ادارہ جدید کنٹرول روم کے ذریعے قدرتی آفات کی مانیٹرنگ کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’این ڈی ایم اے صوبوں کو قدرتی آفات سے متعلق معلومات بروقت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ حفاظتی اقدامات اٹھائے جا سکیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ قدرتی آفت اور ڈیزاسٹر کے حد سے زیادہ بڑھ جانے کی صورت میں ہی این ڈی ایم اے مدد کے لیے پہنچتا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوارڈینیشن کا منزہ حسن کی صدارت میں جمعرات کو اجلاس ہوا، جس میں چئیرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے پاکستان کو درپیش موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز اور تیاریوں پر بریفنگ دی۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات
چیئرمین این ڈی ایم اے نے کمیٹی کو بتایا کہ ’پاکستان کو شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے اور یہ ایسے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’2025 میں پاکستان پانی کی کمی سے متاثر ہونے والا 15واں ملک بن جائے گا۔ اس سال معمول سے زیادہ بارشیں متوقع ہیں، جو سندھ، لوئر پنجاب اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں متوقع ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے بتایا کہ ’پاکستان بہت ہی تیزی سے جنگلات کھو رہا ہے، جب کہ گلیچیرز کے پگھلنے سے بھی سیلاب کا خدشہ ہے۔‘
این ڈی ایم اے الرٹس
این ڈی ایم اے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’این ڈی ایم اے چھ ماہ پہلے وارننگ جاری کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قدرتی آفت پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ ضلعی سطح پر انتظامیہ کی پہلے ذمہ داری بنتی ہے۔
’این ڈی ایم اے مختلف اداروں کے ساتھ ایمرجنسی مشقیں بھی کرتا ہے۔ بہت سی معلومات صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیز کے ساتھ بھی شیئر کر چکے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے پاس جدید کنٹرول روم ہے۔‘
ممبر کمیٹی شگفتہ جمانی نے سوال اٹھایا کہ ’آنے والے دنوں میں بھی بارشیں متوقع ہیں۔ تو اس کے لیے این ڈی ایم اے کا کیا لائحہ عمل ہے؟
چیئرمین این ڈی ایم اے نے جواب دیا کہ ’18ویں ترمیم کے بعد یہ سبجیکٹ صوبائی نوعیت کا ہے۔ ہم صوبوں کو بروقت معلومات فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ حفاظتی اقدامات اٹھا سکیں، مختلف وجوہات کی بنیاد پر مثالی اقدامات نہیں بھی ہو پاتے۔ ماضی میں اور اب ایک ہی جگہ پر مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مختلف شہروں میں تجاوزات کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں۔‘
این ڈی ایم اے ایپ
این ڈی ایم اے حکام نے الرٹ ایپ سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’اس ایپ سے پہلے سے الرٹ موصول ہو جائے گا۔ اگر کسی کو پڑھنا نہ آتا ہو تو یہ ایپ اس کو میسج پڑھ کر سنائے گی۔ ہر زبان میں پبلک سروس میسج موجود ہے، ہنگامی صورتحال میں کیا کرنا ہے، ایپ آپ کی رہنمائی کرے گی۔‘
رکن کمیٹی شگفتہ جمانی نے الرٹ ایپ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں مطمئن نہیں ہوں، ایسے علاقے جہاں لوگوں کے پاس انٹرنیٹ نہیں ، سمارٹ فون نہیں یہ ایپ ان کے کسی کام کی نہیں، وہ لوگ کیا کریں، تباہی ہو جانے کے بعد ہم کیوں اپ آپ پاس آ کے کمبل مانگیں، راشن بیگز مانگیں۔ جن لوگوں کے پاس ٹیکنالوجی کی سہولت نہیں ان کے لیے پہلے سے کیا انتظامات کیے جاتے ہیں؟‘
اراکین کمیٹی کا بریفنگ پر عدم اطمینان
شگفتہ جمانی نے چیئرمین این ڈی ایم اے کی بریفنگ پر بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’میں آپ کے جواب سے مطمئن نہیں ہو پا رہی ہوں، معذرت کے ساتھ این ڈی ایم اے پہلے سے کچھ خاص نہیں کرتا۔ جب ہم گراس روٹ لیول پر تکلیف میں ہوتے ہیں، اس کا این ڈی ایم اے کو اندازہ نہیں ہے، ہمیں جب پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ مون سون بارشوں سے سیلاب اور بارشیں ہوں گی۔ این ڈی ایم اے پہلے سے ایسے اقدامات کیوں نہیں کرتا کہ لوگ محفوظ ہو سکیں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیٹی ممبر صاحبزاداہ صبغت اللہ نے کہا کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ آپ نے جو ابتدائی وارننگ سسٹم بنایا ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جو گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اس پر این ڈی ایم اے کیا اپنا کردار ادا کر رہی ہے؟ میرے حلقہ میں ایک پل سیلاب کے باعث بہہ گیا،اس کی مرمت کے لیے ابھی تک کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھایا گیا۔‘
چیئرمین این ڈی ایم اے نے جواب دیا کہ یہ صوبائی نوعیت کا مسئلہ ہے، اگر آفت اور ڈیزاسٹر حد سے زیادہ بڑھ جائے تو این ڈی ایم اے مدد کے لیے پہنچتا ہے، ڈسٹرکٹ ڈی ایم اے کو بھی مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو درخواست کی ہے کہ دریاؤں کی گذرگاہوں میں لوگوں کو آباد نہ ہونے دیں۔ لوگ ایسی جگہوں پر آباد ہوتے ہیں جہاں سے پانی کا گزر ہوتا ہے۔ جبکہ شہریوں میں صفائی ستھرائی کی صورتحال اچھی نہیں ہوتی، جس کی بنا پر اربن فلڈنگ ہوتی ہے۔‘
اس موقع پر چیئرمین کمیٹی منزہ حسن نے استفسار کیا کہ کیا این ڈی ایم اے نے بارش کے پانی کے ریزروائر پر کوئی کام کیا ہے؟ کیا اس پر آپ نے صوبوں اطلاع دی کہ کس علاقہ میں رین واٹر ریزروائر بن سکتے ہیں؟‘
چئیرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ ہم گوادر کے اردگرد تین ڈیم بنائیں گے۔ ہم نے بڑھتی آبادی کے لیے بارش کے پانی کو پینے کے قابل بنانا ہے۔
کمیٹی ممبر اویس جکھڑ نے کہا کہ میرا حلقہ لیہ کئی سالوں سےسیلاب سے تباہ ہوتا آرہا ہے۔ جوعلاقہ مسلسل سیلاب متاثرہ ہے،وہاں پر این ڈی ایم اے جا کر کام کرے۔ کئی علاقوں میں دریائی پانی کے بہاؤ سے کبھی بھی سیلاب آ سکتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے علاقے جو سیلاب سے متاثر ہوئے ان کا بریفنگ میں ذکر ہی نہیں۔ ضلع لیہ کے حوالے سے سروے کرکے مخصوص فنڈز مختص کریں۔ این ڈی ایم اے پوسٹ ڈیزاسٹر کیوں اقدامات نہیں اٹھاتا؟ کیا سیلاب متاثرہ علاقوں کے نمائندوں سے این ڈی ایم اے رابطہ میں رہتا ہے؟‘ چیئرمین این ڈی ایم اے نے جواباً کہا کہ ہم اس حوالے سے رابطہ رکھتے ہیں۔‘
رکن کمیٹی اویس لغاری نے کہا کہ ’صوبائی حکومتوں کو ذمہ داری لینا ہو گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ایک بڑے صوبہ میں لوکل گورنمنٹ ہی نہیں ہے۔ پاور اور انرجی انفراسٹرکچر میں ہمارا ساتھ ہو تم ہم آفات سے مل کر نمٹ سکتے ہیں۔‘