’ہم پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔ کئی عشروں سے ہم انہی کنوؤں کا پانی پیتے آ رہے تھے مگر اب 2025 میں پانی کے یہ کنویں خشک ہو گئے ہیں۔‘
یہ کہنا تھا میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کے علاقہ تور کھوئی کے مقامی ساجد خان کا۔
46 سالہ ساجد خان کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں کنوؤں کے پانی کی سطح کبھی اتنی نیچے نہیں گئی ’یہ پہلا موقع ہے کہ ان کنوؤں میں موجود پانی زیر زمین کافی نیچے چلا گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں خشک سالی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے کئی مویشی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
’جن لوگوں کے پاس پیسہ تھا وہ کالاباغ میں کرائے کے مکانوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔‘
ساجد خان کے بقول: ’علاقے میں موجود گیس نکالنے والی کمپنی کی ڈرلنگ اور بلاسٹنگ کی وجہ سے زیر زمین پانی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے پہاڑوں سے درختوں کی بے دریغ کٹائی اور بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی کنوؤں کا پانی نیچے چلا گیا ہے۔‘
کالا باغ سے 18 کلومیٹر دور کوہاٹ روڈ پر کچہ بانگی خیل کے قریب انڈیپنڈنٹ اردو کی ٹیم نے آٹھ کلو میٹر کا دشوار گزار سفر موٹر سائیکل پر طے کر کے تور کھوئی گاؤں پہنچی، جہاں 100 گھروں کے لیے صرف ایک مڈل سکول ہے، جب کہ پکی سڑک ہے نہ اس گاؤں میں بجلی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں کے مکین بجلی کے بغیر گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے سولر پینلز کا استعمال کرتے ہیں۔
یہاں کے ایک بزرگ شخص محمد اقبال نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1901 میں انگریز دور میں یہ کنویں کھودے گئے تھے اور 125 سالوں میں ان میں پانی کی سطح کبھی کم نہیں ہوئی۔
’لیکن اب موسمیاتی تبدیلیوں، بارشوں کی کمی اور گیس کی تلاش کرنے کے لیے کھدائی کرنے والی کمپنی نے یہاں بھی اپنا اثر ڈالا ہے۔ بارشوں کا نہ ہونا اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے ان کنوؤں میں موجود پانی کی سطح نیچے چلی گئی ہے اور کنویں خشک ہو چکے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مال مویشی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں جب کہ پاکستان کا سب سے بڑا دریا دریائے سندھ یہاں سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پرکالاباغ کے مقام پر آب و تاب سے بہہ رہا ہے۔‘