افغانستان: کنویں میں پھنسا چار سالہ بچہ چل بسا

افغان صوبے زابل کے دوردراز گاؤں شوکاک میں 16 فروری کو ایک بچہ تقریباً 33 فٹ گہرے کنویں میں گر کر پھنس گیا تھا، جسے نکالنے کے لیے طبی عملہ اور ریسکیو ٹیمیں جائے حادثہ پر موجود تھیں۔

افغان انتظامیہ کے مطابق صوبہ زابل کے ایک گہرے کنویں میں تین روز قبل گرنے والے چار سالہ حیدر نامی بچے کو جمعے کو باہر نکال لیا گیا، تاہم وہ چل بسا۔

زابل حکومت کے ترجمان شرافت ویاڑ کا کہنا ہے کہ ’کنویں میں پھنسے بچے کو نکال لیا گیا لیکن وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔‘

یاد رہے کہ چند گھنٹے قبل ہی افغان انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ ملک کے دور افتادہ صوبے زابل کے ایک گہرے کنویں میں گرنے والے بچے کو بحفاظت نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں جاری تھیں اور طبی عملہ اور ریسکیو ٹیم بچے تک پہنچ چکے تھے۔

یہ واقعہ بدھ (16 فروری) کو پیش آیا، جب زابل کے ایک دور دراز گاؤں میں ایک بچہ تقریباً 33 فٹ گہرے کنویں میں گر کر پھنس گیا تھا۔

افغان حکومت کے صوبہ زابل کے ترجمان شرافت ویاڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا تھا کہ ’گذشتہ 13 گھنٹوں سے بچے کی جانب سے کوئی آواز نہیں سنی گئی، لیکن اب ڈاکٹرز بچے تک پہنچ چکے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’طبی عملہ بچے تک پہنچ گیا تاہم بچے کی صحت بہتر نہیں تھی۔‘

شرافت ویاڑ نے بتایا تھا کہ ڈاکٹروں نے بچے کو کنویں کے اندر ہی ابتدائی طبی امداد دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ اگر اس کو اسی حالت میں نکالا جاتا تو کنویں کے اندر اور باہر کی آب و ہوا میں فرق کی وجہ سے بچے کی حالت بگڑ سکتی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ’کل تک ریسکیو ٹیم موبائل فون کیمرے کی مدد سے بچے کی حالت پر نظر رکھے ہوئے تھی اور اس کے بعد گاڑی میں لگا ریئر کیمرہ اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا اور بچے سے بات کی جاتی تھی۔‘

ریسکیو آپریشن کیسے اور کون کر رہا تھا؟

ترجمان شرافت ویاڑ نے بتایا تھا کہ ریسکیو کے حوالے سے سرکاری سطح پر جتنے بھی وسائل موجود ہیں، ان کو استعمال میں لایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ریسکیو میں ایسکیویٹر، بلڈوزر، ٹریکٹر اور ڈرل مشین سمیت دیگر مشینری استعمال کی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 شرافت نے بتایا تھا کہ ’یہ کنواں آبادی کے درمیان واقع ہے یعنی اس کے ارد گرد گھر موجود ہیں، تو ریسکیو ٹیم نے کنویں کی طرف ایک جانب سے سرنگ کھودنے کا کام شروع کیا تاکہ بچے تک پہنچ سکیں۔‘

اسی بارے میں افغان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کو جاری ایک آڈیو پیغام میں بتایا کہ ’یہ واقعہ ایک دور دراز علاقے میں پیش آیا، جہاں پر موبائل سگنلز نہیں ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں کہ بچے کو زندہ نکال لیا گیا ہے، ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا ہے، وہاں سگنلز نہیں ہیں اور حکومتی اہلکار ریسکیو آپریشن کے حوالے سے معلومات دینے کے لیے ایک قریبی پہاڑی پر جاتے ہیں تاکہ سگنلز آ سکیں اور تب ہی ہمیں معلومات مل رہی ہیں۔‘

بچہ کنویں میں کیسے گرا؟

ترجمان اشرف ویاڑ سے جب پوچھا گیا کہ یہ بچہ کنویں میں کیسے گرا، توانہوں نے کہا کہ ’اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

شرافت نے بتایا کہ ’ہمیں یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ اس کنویں کے اوپر سٹیل کا کور موجود تھا لیکن بچوں نے اسے کباڑ میں بیچ دیا اور اس کی جگہ ایک کپڑا کنویں کے دہانے پر رکھ دیا گیا تھا اور یہ بچہ غلطی سے اسی کپڑے پر پاؤں رکھنے کی وجہ سے کنویں میں گر گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا