باڑہ: رضاکار 19 دن بعد بچے کی لاش کنویں سے نکالنے میں کامیاب

باڑہ کے تحصیل چیئرمین کفیل نے بتایا کہ تمام رضاکار چھ چھ گھنٹوں کی چار شفٹ میں کام کرتے تھے، اور 13  دن مزدوروں اور رضاکاروں کو کھدائی میں لگے اور گذشتہ روز بچے کو نکالنے میں کامیابی ملی۔

اس ماہ کے شروع میں ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والا تین سالہ بچہ کنویں میں گر گیا تھا جسے ایک طویل آپریشن کے باوجود ریسکیو نہیں کیا جا سکا، تاہم اب اس بچے کی لاش نکال کر تدفین کر دی گئی ہے۔

نو جنوری کو بچہ اپنے بینائی سے محروم والد کے ساتھ گھر سے باہر کھیل رہا تھا کہ تنگ اور گہرے کنویں میں گر گیا۔ والد نے اپنی کوشش کی تھی کہ بچے کو کنویں سے گرنے سے بچا سکیں تاہم بچے کو آنکھوں سے نہ دیکھنے کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوسکے۔

بچے کو نکالنے کے لیے ریسکیو 1122 کی جانب سے دن تک آپریشن کیا جاتا ہے، لیکن بچے کو نکالنے میں ناکامی ملتی ہے۔ اس وقت ریسکیو1122  ضلع خیبر کے ترجمان مقصود آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کنویں کی کم چوڑائی کہ وجہ سے بچے کو نکالنا مشکل ہے۔

کنویں کی چوڑائی تقریباً ایک فٹ جبکہ گہرائی 260 فٹ تک تھی اور11 جنوری کو بچے کے خاندان اور علاقہ عمائدین نے فیصلہ کرتے ہوئے کنویں کو ہی قبر قرار دے دیا تھا۔

تاہم اس کے بعد کچھ لوگوں نے بچے کو کنویں سے نکالنے کا تہیہ کرلیا اور 13 دن محنت کے بعد بچے کو کنویں سے نکال دیا گیا اور ان کو باقاعدہ طور پر آبائی قبرستان میں دفنا دیا گیا۔

بچے کو کیسے نکالا گیا؟

بچے کو کنویں کی قبر سے نکالنے کے آپریشن میں تقریباً 25 افراد نے حصہ لیا۔ یہ افراد کون تھے، اس سے پہلے اس آپریشن کے طریقہ کار پر بات کرتے ہیں۔

محمد کفیل باڑہ کے تحصیل چیئرمین ہیں اور بچے کو نکالنے کے آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے  انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کنویں کی گہرائی تقریباً 260 فٹ تھی اور چوڑائی تقریباً ایک فٹ تھی۔

 کفیل نے بتایا، ’سب سے پہلے کام ہم نے یہ کیا، کہ کنویں کی چوڑائی کو تقریباً پانچ فٹ تک کھول دیا تاکہ ایک بندہ اس میں نیچے جاسکے اور بچے کو نکالا جا سکے۔‘

جب اس کنویں کو قبر ڈیکلیئر کیا گیا تھا تو محمد کفیل کے مطابق: ’مٹی ڈالنے سے پہلے ہم نے بچے کی جسم کے اوپر روئی نیچے پھینک دی تھی تاکہ جسم خراب نہ ہوسکے کیونکہ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم ایک نہ ایک دن اس بچے کو کنویں سے نکالیں گے۔‘

باڑہ کے تحصیل چیئرمین کفیل نے بتایا کہ تمام رضاکار چھ چھ گھنٹوں کی چار شفٹ میں کام کرتے تھے، اور 13 دن مزدوروں اور رضاکاروں کو کھدائی میں لگے اور گذشتہ روز بچے کو نکالنے میں کامیابی ملی۔

محمد کفیل نے بتایا، ’ایک رضاکار نیچے گیا او بچے کو وہاں سے نکال لیا۔ ہمارے لیے یہ خوشی کی بات تھی کہ ہم نے بچے کے خاندان والوں کو تسلی دی کیونکہ ان کی خواہش تھی، کہ بچے کو نکال کر ان کو آرام سے اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا جاسکے۔‘

محمد کفیل نے بتایا: ’ہمیں خاندان والوں کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ اگر بچے کو نکالنے کے بعد ان کا چہرہ مسخ ہوچکا ہے، تو گھر لانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کو دیکھنا برداشت سے باہر ہوگا اور چونکہ بچے کا چہرہ مسخ تھا تو ہم نے فوراً ان کو قبرستان میں دفنا دیا۔‘

آپریشن میں حصہ لینے والے کون تھے؟

 بچے کو نکالنے والے تمام رضاکار تھےاور کنویں کھودنے اور کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدور تھے۔ زیادہ تر افراد مقامی یعنی ضلع خیبر کے تھے جبکہ بعض ضلع ملاکںڈ، مہمند اور باجوڑ سے بھی آپریشن میں حصہ لینے گئے تھے۔

محمد کفیل نے بتایا کہ جہاں پر کنواں واقع تھا، وہاں کی زمین پتھریلی تھی اور بہت محنت مشقت سے کھدائی کی گئی تھی لیکن چونکہ رضاکار پہلے سے ماہر تھے، تو ان کو کام کرنے میں اتنی دشواری پیش نہیں آئی۔

کفیل نے بتایا، ’رضاکاروں کے علاوہ ریسکیو1122 کے دو اہلکاروں نے بھی اس آپریشن میں حصہ لیا ہے۔ تمام کے تمام افراد رضاکارانہ طور پر کام کرتے تھے، اور ان کو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کھدائی کے لیے کون سی مشینری استعمال کی گئی ہے، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کھدائی میں کسی قسم کی بھاری مشینری استعمال نہیں کی گئی ہے بلکہ زیادہ استعمال ڈرلنگ مشین کا کیا گیا ہے۔

محمد کفیل نے بتایا کہ مقامی افراد نے زیادہ اس آپریشن میں مدد کی اور جتنا ہو سکا تعاون کیا۔

 محمد کفیل سے جب پوچھا گیا کہ بچے کو نکالنے کے بعد والدین کے کیا تاثرات تھے، تو ان کا کہنا تھا : ’بچے کے والد بینائی سے محروم ہیں اور آپریشن کے دوران سارا دن وہ ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے اور نکالنے کے بعد ان کا یہی کہنا کہ اب ان کی دل کو سکون مل گیا۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان