بے چینی کی ایک لہر جو چلی تھی، ہنزہ پہنچ گئی ہے!

جہاں ہماری کوئی بندرگاہ ہے، وہاں شورش ہے۔ جہاں کوئی کاروباری مرکز ہے وہاں انارکی ہے۔ اب اس فہرست میں ہنزہ بھی شامل ہو گیا ہے۔

گلگت بلتستان کے علاقوں میں ہنزہ وہ علاقہ ہے جو ہر موسم میں بہت مطمئن دکھائی دیتا ہے(اے ایف پی)

طبقے اگر مایوس ہوجائیں تو سمجھ جانا چاہیے کہ اختیارات کی ڈور اشرافیہ کے کسی ایک دھڑے کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ نظام کی روانی متاثر ہوگئی ہے اور معاشرے کا چین اجڑ گیا ہے۔

بلوچستان کی شورشیں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ نصف صدی سے زائد کے عرصے کا اگر تجزیہ کیا جائے تو کچھ وجوہات اس کی مستقل اور مسلسل ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان کی اکثریتی آبادی انتخابی عمل سے لاتعلق رہتی ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ بلوچوں نے جن بلوچ رہنماؤں پر بھروسہ کیا، ہم نے انہی رہنماؤں کو دیوار سے لگایا۔

قوم جب کسی رہنما کا انتخاب کرتی ہے تو وہ محض کسی فین کلب کا اظہارِ محبت نہیں ہوتا۔ دراصل وہ قوم کچھ کہنا چاہ رہی ہوتی ہے، مگر ہم سنتے نہیں ہیں۔ یہ جو غداری کا سرکس کچھ دنوں سے لاہور کے ایک تھانے میں لگا ہوا ہے، یہ بلوچستان میں سات دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔

میثاقِ جمہوریت کی تاریخی اور سیاسی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو یہ دیکھ لیا کریں کہ اس دستاویز کی مخالفت کون لوگ کرتے ہیں۔ میثاقِ جمہوریت دراصل اس بات کا پیمان ہے کہ ہر علاقے میں وہاں کی نمائندہ آوازوں کے اختیار کو تسلیم کیا جائے گا۔ جوڑ توڑ کر کے کسی اکثریتی عوامی قوت کو اقلیت میں تبدیل نہیں کیا جائے گا۔

اسی فارمولے کا اثر تھا کہ جب 2013 کے انتخابات کے بعد جمعیت علمائے اسلام نے مسلم لیگ کو پختونخوا میں مل ملا کر حکومت بنانے کی دعوت دی تو مسلم لیگ نے انکار کر دیا۔ پی ٹی آئی صوبے میں اکثریتی جماعت بن کر ابھری تھی، اس کے اس مینڈیٹ کو تسلیم کر لیا گیا۔ یہ میثاقِ جمہوریت کا ہی فیض تھا کہ بلوچستان میں اختیار کی کنجی وہاں کی اصلی نسلی سیاسی قیادت کی طرف سرکنے لگی۔ ابھی یہ روایت قدم دو قدم چلی ہی تھی کہ بلوچستان حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ پہلے مرحلے میں پانچ سو ووٹ حاصل کرنے والے کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا اور دوسرے مرحلے میں کسی نامعلوم مقام پر کوزہ گروں کو بٹھا دیا گیا۔

جلدی جلدی میں ان کوزہ گروں نے جو کوزے بنائے اسے باپ پارٹی کا عنوان دے کر خیراتی آرٹ گیلری میں رکھ دیا گیا۔ نتیجہ؟ لوگ مکمل طور پر الیکشن سے لاتعلق ہو گئے۔ جو دوچار لوگ فیصلے والے دن نکلے، انہی کے ووٹ گن کر ہار جیت کی مہریں لگادی گئیں اور ایک ایسی حکومت قائم ہو گئی جس کی عوامی حلقوں میں اللہ واسطے کی جڑیں بھی نہیں ہیں۔

کس نے سوچا تھا کہ ایک دن کراچی بھی سیاسی نمائندگی سے محروم ہو جائے گا، مگر یہ ہونا تھا اور ہو گیا۔ یہ اس لیے بھی ہونا تھا کہ کراچی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی ریت روایت کافی پرانی ہے۔ بقراطوں نے سارے ہی فارمولے لڑا کے دیکھ لیے مگر کراچی سے ابھی تک کچرا نہیں اٹھایا جا سکا۔ جہاں ابھی کچرے کا سوال حل نہیں ہو پایا، سوچیے وہاں دوسری گمبھیرتاؤں کی باری کب آئے گی؟

کراچی میں لوگوں کی لاتعلقی کے ثبوت و شواہد 2018 کے انتخابات کے نتائج میں درج ہیں۔ کراچی کے انتخابات میں جس چیز کو سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں وہ بائیکاٹ ہے۔ ہماری کم بختی بس یہ ہے کہ ہم ملنے والے دس ووٹ تو گن لیتے ہیں، مگر نہ ملنے والے 90 ووٹوں کو کسی شمار میں نہیں رکھتے۔ ہمیں لگتا ہے کہ نظامِ ہستی انہی دس ووٹوں سے چلے گا۔ مگر جب ہستی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے تو بھانت بھانت کے تجزیے تو ہم کر لیتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ سو میں سے 90 خاموش آوازوں کو بھی حساب میں لائے بغیر بات نہیں بنے گی۔

علاقے کے لوگ ہی جہاں نظام سے لاتعلق ہو جائیں، وہاں معاملات آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ نظام کوئی مشین تو نہیں ہوتی کہ بٹن دبایا چل گئی، بٹن دبایا بند ہو گئی۔ یہ طبقوں کا اطمینان ہوتا ہے جو کاروبارِ زندگی کو ایک ترتیب میں لے کر چل رہا ہوتا ہے۔ جہاں اطمینان کی یہ ڈور ٹوٹ جاتی ہے، وہاں سے آگے انارکی اور بدمزگی شروع ہوجاتی ہے۔

کوئی دو برس پہلے فاٹا سے کچھ لوگ چل کر اسلام آباد آئے تھے۔ سیدھے سادے سے دوچار مطالبات تھے، جنہیں وقت دینا تو دور کی بات ہم نے احترام بھی نہیں دیا۔ ہمارے نظام نے نقیب محسود کے بیمار والد کو عدالتوں میں الجھائے رکھا، جبکہ نامزد پولیس افسر کو رات کے اندھیرے میں پچھلے دروازے سے نکال دیا گیا۔

انسان سوچتا ہے کہ کیا کسی خطے میں بڑھنے والی بے چینیوں پر قابو پانے کے دوچار طریقے رہ گئے ہیں؟ خیال کیا جا رہا تھا کہ جب فاٹا کو پختونخوا میں ضم کر دیا جائے گا تو بہت سارے مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے۔ لیجیے فاٹا ضم ہو گیا، کیا لوگ مطمئن ہو گئے؟ نہیں، لوگوں کے دلوں پر درج سوالیہ نشان اور بھی گہرے ہو گئے۔ جب تک زمین زادوں کو فیصلہ سازیوں میں شامل نہ کر لیا جائے، زمین کیسے مطمئن ہو سکتی ہے؟

جہاں ہماری کوئی بندرگاہ ہے، وہاں شورش ہے۔ جہاں کوئی کاروباری مرکز ہے وہاں انارکی ہے۔ اب ریشم کے دھاگوں سے بنی ایک سڑک جو چین سے مال لے کر نکلتی ہے اور ہنزہ کے پہاڑوں سے گزر کر پاکستان کے میدانی علاقوں میں اترتی ہے، وہ سڑک بھی اندیشہ ہائے دور دراز کی ایک تصویر بن گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گلگت بلتستان کے علاقوں میں ہنزہ وہ علاقہ ہے جو ہر موسم میں بہت مطمئن دکھائی دیتا ہے۔ یہ علاقہ احتجاج اور گھیراؤ جیسی چیزوں کو سیاسی آلودگیوں سے تعبیر کرتا ہے۔ یہاں کے لوگ سرگوشیاں کر لیتے ہیں مگر شکایت درج نہیں کراتے۔ اب وہاں کے لوگوں نے بھی اپنے دل جلا کر علی آباد کے دروازے پر رکھ دیے ہیں۔ ان کے نعروں، مطالبوں اور تقریروں کو جمع کر کے اگر خلاصہ نکال لیا جائے تو بات یہ بنتی ہے کہ ’ہم ناراض ہیں۔‘

18 برس قبل اتور میں زلزلہ آیا تو عطا آباد کے پہاڑوں میں دراڑ پڑی۔ اس سے عطا آباد کی زمین سرکتی گئی، پہاڑوں کے شگاف بڑھتے گئے مگر سرکار ہاتھی کے کان میں بے فکری کے خراٹے بھرتی رہی۔ سال 2010 میں پہاڑوں کی ہمت جواب دے گئی تودے ایک قیامت بن کر دریائے ہنزہ پر ٹوٹ پڑے۔ 20 لوگ اسی موقعے پر ہلاک ہو گئے اور چھ ہزار لوگ بے گھر ہو گئے۔

بے گھر لوگوں نے اپنے نقصان کے ازالے کی بات کی، نہیں سنی گئی۔ متبادل انتظام کی بات کی، نہیں سنی گئی۔ بے حسی اور بے بسی حد سے گزری تو بابا جان ان کے نمائندہ بن کر سامنے آ گئے۔ آج جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں تو 2020 کا سال اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ دس برس کا عرصہ بنتا ہے۔ کیا درس کا عرصہ کسی طبقے کو مطمئن کرنے کے لیے کم ہوتا ہے؟ ان دس برسوں میں با اختیار حلقوں نے جس ذہانت سے کام لیا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ بے گھر لوگوں کو ہراساں کیا گیا، بابا جان اور ان کے ساتھیوں کو حراست میں لیا گیا، دہشت گردی کے مقدمے بنائے گئے، 70 برس کی سزا سنا دی گئی۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ وہی بے گھر لوگ اسیروں کے اہل خانہ کے ساتھ دگنی تعداد میں علی آباد کی سڑکوں پر بیٹھ گئے ہیں۔

28 اپریل 1949 کو کراچی میں کہیں کسی بند کمرے میں گلگت بلتستان کی حیثیت کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے میں آسمان اور زمین کی نمائندگیاں موجود تھیں، مگر گلگت بلتستان سے کسی نمائندے کو زحمت نہیں دی گئی۔ ابھی ایک ماہ قبل اسی سرزمینِ بے آئین کی تقدیر لکھنے کے لیے پوری قومی قیادت کو غیب کے پردوں میں جمع کیا گیا۔ پراسرار سی اس مجلس شوریٰ میں گلگت بلتستان کے علاوہ ہر علاقے اور خطے کے لوگوں سے رائے مانگی گئی۔ جن لوگوں کی رائے سننی چاہیے تھی وہ یا تو عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں یا پھر علی آباد کے دھرنے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

حاجی نواز خان ناجی نے ابھی کل ہنزہ کے اس مقام کو پاکستان کی گردن قرار دیا۔ نقشہ سامنے رکھ کر اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو کہ کس قدر جامع بات انہوں نے کہہ دی ہے۔ اس گردن میں پھندے ہم پہلے ہی ڈال چکے تھے، اب جانے کیوں اسے کھینچ کھینچ کر ہم گلا گھونٹ رہے ہیں۔ سانس لینے میں دشواری ہو گی تو دل کے تار کیسے بجیں گے۔

کوئی وجہ ہی ہو گی جو ہم زمین کی نمائندہ آوازوں کو بے چین کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ لوگ اس رویے کو بہت محسوس کرتے ہیں۔ باغبان ہی اگر مطمئن نہ ہوں گے تو باغ میں پھول کیسے کھلیں گے۔ بات کیسے چلے گی اور دل کیسے ملیں گے۔


یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ