ستر سال کی سزا پانے والے گلگت کے 'بابا جان' انصاف کے منتظر

عطا آباد جھیل کے متاثرین کے لیے آواز اٹھانے والے بابا جان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تین مقدمات میں مجموعی طور پر 70سال کی سزا سنا رکھی ہے۔

بابا جان  نے اپنی سزا کے خلاف اپیل بھی دائر کر رکھی ہے، جو زیر سماعت ہے (تصویر سید اولاد الدین شاہ)

میڈیا کی نظروں سے اوجھل گلگت بلتستان کے غریب خاندان کے ایک 'سیاسی قیدی' بابا جان اپنے ساتھیوں سمیت جیل میں 70 سال عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے اور پاکستان لیبر پارٹی کے رہنما بابا جان یوں تو سیاسی طور پر پہلے بھی متحرک تھے، لیکن ان کے مصائب کا آغاز اس وقت ہوا جب چار جنوری، 2010 کو لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں عطا آباد جھیل وجود میں آئی اور بابا جان نے متاثرین کے حق میں ایک مہم چلائی تاکہ انہیں ان کا حق مل سکے۔

اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، جہاں 11 اگست کو علی آباد کے علاقے میں متاثرین کے ایک مظاہرے کے دوران پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص اور ان کا 22 سالہ بیٹا ہلاک ہوگیا، جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے مقامی پولیس سٹیشن کو آگ لگادی تھی۔

بابا جان نے اس قتل کے خلاف بھی ایک مہم چلائی اور ذمہ داران کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن حکومت نے متاثرین کو انصاف دلانے کی بجائے بابا جان کے خلاف جلاؤ گھیراؤ کے الزام میں دہشت گردی کے مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کر لیا اور 13 مہینے جیل میں گزارنے کے بعد باباجان کو ضمانت پر رہائی ملی۔

بعدازاں جب 2013 میں گندم کی سبسڈی کی بحالی کے لیے گلگت بلستان میں عوامی ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی تو ضلع ہنزہ نگر میں اس کمیٹی کی ذمہ داری بابا جان کو سونپی گئی اور انہوں نے وہاں تاریخی مظاہروں کا انعقاد کیا، جس کے نتیجے میں حکومت نے سبسڈی تو بحال کردی لیکن 2014 میں ان کی ضمانت منسوخ کرکے بابا جان کو دوبارہ جیل میں ڈال دیا گیا اور اس بار انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تین مقدمات میں مجموعی طور پر ان کو 70 سال کی سزا سنائی۔

بابا جان اب بھی جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی سزا کے خلاف اپیل بھی دائر کر رکھی ہے، جو زیر سماعت ہے۔

جیل سے انتخابات میں حصہ

2015 کے انتخابات میں بابا جان نے ہنزہ کی سیٹ پر جیل میں بیٹھ کر حصہ لیا اور دوسرے نمبر پر آئے۔ بعدازاں جب اسی سیٹ پر دوبارہ ضمنی انتخاب ہوا تو بابا جان ایک انتہائی مشہور امیدوار کے طور پر ابھرے، لیکن جب انہوں نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ کے ذریعے ان کی معطل سزا کو بحال کروا دیا گیا تاکہ وہ انتخاب میں حصہ نہ لے سکیں۔

گلگت بلتستان کے صحافی صحافی اسرار احمد اسرار کہتے ہیں کہ 'بابا جان ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے اور غریبوں کے حقوق کے لیے بات کرنے والے انسان ہیں جو ہمیشہ حق کی بات کرتے ہیں اور انہیں جیل میں اس لیے ڈالا گیا کیونکہ وہ عوام اور خاص کر نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں، لیکن سیاسی مخالفین یہ نہیں چاہتے کہ وہ اسمبلی میں آئیں اور عوام کی نمائندگی کریں، اس لیے بابا جان سمیت ان کے 12 ساتھیوں کو پابند سلاسل کیا گیا ہے۔'

'سیاسی قیدی'

اس کیس کے حوالے سے لمز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مزدور کسان پارٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر تیمور رحمان کا کہنا ہے کہ 'بابا جان کوئی جرائم پیشہ یا دہشت گرد نہیں ہیں، ان پر سیاسی بنیاد پر کیسز بنائے گئے ہیں۔ وہ ایک سیاسی قیدی ہیں، جو نوجوان اور ترقی پسند رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ بابا جان کے خلاف درج سیاسی کیسز کا خاتمہ کرکے انہیں رہائی ملنی چاہیے۔

بابا جان کے چچا زاد بھائی ناصر علی کہتے ہیں کہ 'بابا جان کو جلاؤ گھیراؤ کے جس مقدمے میں جیل میں ڈالا  گیا ہے۔ اس وقت وہ پوشی نگر میں عمائدین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، جہاں اس وقت کے وزیر خزانہ محمد علی اختر بھی موجود تھے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے کیس میں 35 ملزمان تھے، جنہوں نے جلاؤ گھیراؤ کیا تھا اور اس کی ویڈیو حکومت کے پاس موجود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2012 میں فرحت اللہ بابر، مشاہد حسین سید اور افرا سیاب خٹک پر مشتمل انسانی حقوق کی پارلیمانی کمیٹی کی ٹیم نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا تھا اور اس کیس کو 'سیاسی بدنیتی پر مبنی کیس' قرار دیا تھا۔

مرحوم عاصمہ جہانگیر اور ہیومن رائٹس کمیشن بھی گلگت کا دورہ کرکے اپنے رپورٹ میں اس کیس کو سیاسی کیس قرار دے چکے ہیں جبکہ 2019 میں صدر عارف علوی نے اپنے دورے کے دوران اس بات کا  اعتراف کیا تھا کہ ہنزہ کے نوجوانوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ 

اس کیس کے سلسلے میں جب بابا جان کے وکیل احسان علی ایڈوکیٹ  سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

دوسری جانب گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور عوامی ایکشن کمیٹی ضلع غذر کے چیئرمین راجہ میر نواز میر بھی اسے ایک سیاسی کیس قرار دیتے ہیں۔  ان کا کہنا تھا: 'سانحہ علی آباد ایک ایسا واقعہ ہے جس میں قاتل کی بجائے مقتولین کے لواحقین اور رشتہ داروں پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا اور بابا جان اور ان کے ساتھیوں کو 70 سال کی سزائیں سنائی گئیں۔ یہ کیسز صرف اور صرف سیاسی بنیادوں پر ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا: 'اس سانحے پر سیشن کورٹ کے جج عالم خان کی سربراہی میں جوڈیشل انکوائری  ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس کی رپورٹ فائلوں میں دبا دی گئی اور منظر عام پر نہیں لائی گئی، تاہم مقامی اخبارات میں چھپنے والی خبروں کے مطابق اس وقت کے وزیراعلیٰ مہدی شاہ، سپیکر اسمبلی (جو ہنزہ کے منتخب ممبر بھی تھے) اور وزیر قانون سمیت ضلعی انتظامیہ کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔'

اس کیس کے سلسلے میں جب نگران وزیر اعلیٰ کے پریس سکریٹری فیض اللہ براق سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ 'یہ کافی پرانا کیس ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں بابا جان پر جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے کیس بنا تھا اور یہ کیس اب بھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ انشا اللہ بابا جان کو اس کیس میں انصاف ملے گا اور ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔'

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان