ڈان نیوز کراچی کے صحافی خاور حسین کی موت کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی تین رکنی اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی ہے، جس کے مطابق کراچی سے سانگھڑ تک ان کے سفر کے دوران ایک ’مسنگ لنک‘ کی مزید تحقیقات ہونی ہیں۔
خاور حسین کی کنپٹی پر گولی لگی لاش 16 اگست کی رات سانگھڑ میں حیدرآباد روڈ پر واقع ایک ریستوران کے باہر سے ان کی اپنی گاڑی سے ملی تھی۔
پولیس نے ابتدائی طور پر خودکشی کا خدشہ طاہر کیا تھا اور اتوار (17 اگست کو) ان کی موت کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔
محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آئی جی) آزاد خان کی سربراہی میں بننے والی تین رکنی کمیٹی میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کراچی غربی عرفان بلوچ اور سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) سانگھڑ عابد بلوچ شامل ہیں۔
ایس ایس پی عابد بلوچ کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی نے کیس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے، خاندان والوں اور عینی شاہدین سے بیانات لے کر تیار کی گئی ابتدائی رپورٹ منگل کی رات حکام کو بھیج دی جب کہ اس کیس کے کچھ مسنگ لنک پر جلد کام مکمل کرکے حتمیٰ پیش کی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں ایس ایس پی سانگھڑ عابد بلوچ نے بتایا کہ خاور حسین کی لاش کی سانگھڑ میں کی گئی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں واضح طور پر موت کی وجہ ’خودکشی‘ لکھی گئی، مگر حیدرآباد میں کیے گئے دوسرے پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ ابھی آنا باقی ہے۔
بقول عابد بلوچ: ’جسم کے مختلف اعضا کی کیمیکل رپورٹ آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پستول کے فرانزک کی فائنل رپورٹ موصول ہوگئی ہے۔ جس کے تحت ’خاور حسین کو گولی اسی پستول سے لگی، جو لاش کے ساتھ ملا۔‘
ایک سوال کے جواب میں عابد بلوچ نے بتایا: ’پستول میں سائلنسر نہیں لگا ہوا تھا۔‘
اس سے قبل ڈی آئی جی پولیس شہید بے نظیر آباد فیصل بشیر میمن نے بتایا تھا کہ ’خاور حسین کی گاڑی سے برآمد ہونے والا پستول ان ہی کی ملکیت تھا، جو انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے رکھا ہوا تھا۔’
گولی کی آواز کیوں نہیں سنائی دی؟
جس ریستوران کے باہر سے خاور حسین کی لاش ملی، وہاں موجود عینی شاہدین کے مطابق کسی نے بھی گولی چلنے کی آواز نہیں سنی۔
ایس ایس پی عابد بلوچ کے مطابق: ’اس دن ہفتے کا آخری دن تھا، کئی لوگ باہر نکلے ہوئے تھے۔ روڈ سائیڈ پر گاڑیوں کا شور تھا۔ اس کے علاوہ خاور حسین کی گاڑی جس جگہ کھڑی تھی، اس کے پیچھے ریستوران کا باورچی خانہ تھا، جہاں پر کھانے پکنے کے باعث شور آرہا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس وقت بارش بھی ہوئی تھی اور شہر میں بجلی بند ہوگئی، اس لیے ریستوران کی بجلی کو بحال رکھنے کے لیے ہیوی ڈیوٹی پاور جنریٹر چلایا گیا تھا۔ یہ پاور جنریٹر خاور حسین کی گاڑی کے نزدیک رکھا ہوا اور اس کا بہت زیادہ شور تھا۔‘
عابد بلوچ نے مزید بتایا کہ ’خاور حسین کی گاڑی پروٹون کمپنی کی تھی، جو انتہائی لگژری ہونے کے ساتھ ساؤنڈ پروف بھی تھی، جس کے اندر چلنے والے تیز میوزک یا کسی اور چیز کی آواز باہر نہیں سنی جاسکتی، لہذا ابتدائی معلومات کے مطابق گولی کی آواز سنائی نہ دینے کی یہ وجوہات تھیں۔‘
’خاور حسین نے سم کارڈ ضائع کرکے فون کو فیکٹری ری سیٹ کر دیا‘
ایس ایس پی سانگھڑ عابد بلوچ کے مطابق واقعے کی ابتدا میں ریستوران کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی ایک سائیڈ کی ویڈیوز میسر تھیں، مگر بعد میں مزید ویڈیوز بھی ملیں۔
انہوں نے بتایا: ’نئی ملنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ خاور حسین اپنی گاڑی سے اتر کر ریستوران کے سامنے موجود ٹائر پنکچر کی دکان پر گئے اور وہاں موجود شخص کو فون دکھا کر اشارے کرتے نظر آئے، جیسے وہ ان سے سوئی نما کوئی چیز مانگ رہے ہیں۔
’اس دکان پر خاور حسین نے پہلے موبائل فون کا کور ہٹایا، بعد میں نوکیلی چیز سے سم کارڈ ٹرےکو باہر نکالا اور بعد میں سم کو ہتھیلی پر رکھ کر خالی سم کارڈ ٹرے کو واپس فون میں لگایا اور آ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔‘
ایس ایس پی سانگھڑ کے مطابق پہلے ملنے والی ویڈیوز میں گاڑی کے ایک سائیڈ کا منظر آرہا تھا، جب کہ بعد میں ملنے والی ویڈیو میں مکمل گاڑی کو واضح دیکھا جا سکتا ہے۔
بقول عابد بلوچ: ’ہم نے تمام ویڈیوز اور عینی شاہدین کے بیانات کا موازنہ کیا اور جو شاہدین نے بتایا تھا، وہی ویڈیوز میں نظر آیا۔
’خاور حسین تین بار گاڑی سے اترے اور بعد میں واپس آکر گاڑی میں بیٹھے، اس دوران کسی اور فرد کو گاڑی میں سوار ہوتے نہیں دیکھا گیا۔‘
پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں خاور حسین کے کراچی ٹول پلازہ سے نکلنے سے سانگھڑ تک کے سفر کے دوران راستوں پر لگی سی سی ٹی وی کیمرا کی ریکارڈنگ حاصل کرلی گئی ہے۔
عابد بلوچ کے مطابق راستوں پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو کے مطابق خاور حسین قومی شاہراہ سے ٹنڈو آدم کی طرف خیبر کے مقام پر شام پانچ بج کر 50 منٹس پر مڑے۔ انہیں خیبر پر ایک پیٹرول پمپ کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا۔
بقول ایس ایس پی سانگھڑ: ’اگر وہ پانچ بج کر 50 منٹ پر خیبر سے ٹنڈو آدم یا سانگھڑ کے لیے روانہ ہوئے تو انہیں سات بج کر پانچ منٹ پر سانگھڑ پہنچ جانا چاہیے تھا، مگر وہ ریستوران پر آٹھ بج کر 15 منٹ پر نظر آئے۔
’اس درمیاں 50 منٹ تک وہ کہاں تھے؟ یہ ایک مسنگ لنک ہے، جس کے لیے ہم راستے پر مختلف مقامات کی سی سی ٹی وی ویڈیوز اکٹھی کر رہے ہیں، جلد ہی اس کا بھی پتہ لگ جائے گا کہ یہ 50 منٹ خاور حسین کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے؟‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ڈان نیوز انتظامیہ سے اس حوالے سے پوچھا گیا کہ انہیں کوئی دھمکی ملی تھی یا وہ کسی خاص خبر پر کام کر رہے تھے؟ جس پر عابد بلوچ نے بتایا کہ ’خاور حسین کے آفس والوں سے بھی بیان لیا گیا، مگر انہوں نے بتایا کہ خاور کو کوئی دھمکی نہیں ملی تھی، سب کچھ نارمل تھا۔‘
پولیس کی ابتدائی تفتیش سے مطمئن ہوں: والد
مرحوم صحافی خاور حسین کے والد رحمت حسین باجوہ کے مطابق وہ پولیس کی ابتدائی تفتیش سے مطمئن ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فونک گفتگو میں رحمت حسین باجوہ نے بتایا: ’میرا بیٹا خاور حسین بہادر تھا۔ وہ خودکشی نہیں کرسکتا۔ میں امریکہ میں تھا، مجھے نہیں پتہ کہ کیا ہوا تھا، مگر تاحال پولیس کی جانب سے جو تفتیش ہوئی ہے، میں اس سے مطمئن ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ابتدائی تفتیش ہے، جب حتمی رپورٹ آئے گی، تب ہی کوئی حتمی ردعمل دے سکتے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ خاور حسین کی کسی کے ساتھ دشمنی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’میں امریکہ میں تھا۔ واپس آیا تو مسلسل مہمانوں کے ساتھ ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ میرے امریکہ جانے کے بعد کوئی دشمنی ہوئی یا کیا ہوا۔‘
صحافیوں کے اس طرح کے کیسز میں تفتیش کس نوعیت کی ہونی چاہیے؟
پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’فریڈم نیٹ ورک‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک کے مطابق صحافت کے پیشے کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ انہیں ان کے کام کے باعث دھمکی مل سکتی ہے یا ان پر حملہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی جان لی جاسکتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اقبال خٹک نے بتایا: ’کسی صحافی پر حملے کے بعد ان کے پیشے کو مدنظر رکھا جائے۔ عینی شاہدین کے بیانات کے ساتھ سی سی ٹی وی فوٹیج جیسے شواہد کو مدنظر رکھا جائے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’خاور حسین کے کیس میں تفتیش کی جائے کہ گولی کیسی چلی؟ اگر خودکشی کی ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟ اس کے علاوہ متاثرہ صحافی کے اہلخانہ، قریبی دوستوں اور آفس والوں سے پوچھا جائے کہ وہ کس طرح کی سٹوری پر کام کر رہے تھے۔ کیا انہیں کوئی دھمکی ملی تھی؟‘
اقبال خٹک کے مطابق اگر کوئی صحافی کسی خبر پر کام کر رہا ہے اور انہیں اندازہ ہو کہ یہ خبر کرنے سے ان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور یہ بھی پتہ ہو کہ کس سے خطرہ لاحق ہے، تو ایسی صورت میں اپنے دفتر کے ساتھ ساتھ گھر والوں اور قریبی دوستوں کو ضرور بتانا چاہیے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا:’2014 میں جب صحافی اور اینکر پرسن حامد میر پو حملہ ہوا تھا تو انہوں اس حملے سے بہت پہلے اپنے قریبی دوستوں کو آگاہ کیا تھا کہ وہ کس خبر پر کام کررہے ہیں اور ان کو کیا خطرہ لاحق ہے۔
بقول اقبال خٹک: ’حامد میر نے مجھے بھی حملے سے بہت پہلے آگاہ کیا تھا۔ بعد میں ہم نے شواہد عدالت میں پیش کیے تھے۔‘