وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار کی ہدایت پر اتوار کو ڈان نیوز سے منسلک صحافی خاور حسین کی موت کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی پولیس کمیٹی تشکیل دے دی گئی، جن کی لاش ہفتے کو رات گئے سانگھڑ میں ایک ریستوران کے باہر کھڑی گاڑی سے برآمد ہوئی تھی۔
واقعے کی تحقیقات کے لیے وزیر داخلہ سندھ کی خصوصی ہدایت پر بنائی گئی کمیٹی میں دو ڈپٹی انسپیکٹر جنرلز (ڈی آئی جیز) اور ایک سینیئر سپرٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شامل ہیں۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) سانگھڑ عابد بلوچ نے ہفتے کی رات صحافیوں کو بتایا تھا کہ پولیس کو اطلاع ملی کہ ریستوران کے باہر ایک گاڑی میں لاش موجود ہے۔ ’لاش کی شناخت خاور حسین کے طور پر ہوئی ہے جو ڈان نیوز کراچی سے وابستہ تھے۔ بظاہر یہ خودکشی لگتی ہے مگر پوسٹ مارٹم رپورٹ اور جائے وقوعہ کے شواہد کے بعد ہی اصل صورت حال واضح ہو گی۔‘
دوسری جانب ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس شہید بے نظیر آباد فیصل بشیر میمن نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ’خاور حسین کی گاڑی سے برآمد ہونے والا پستول انہی کی ملکیت تھا، جو انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے رکھا ہوا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق خاور حسین اس دوران اکیلے تھے۔ ’وہ گاڑی پارک کرنے کے بعد دو بار باہر نکلے، پہلے ہوٹل مینیجر اور پھر چوکیدار سے واش روم کے بارے میں پوچھا، اس کے بعد واپس گاڑی میں آ گئے۔‘
بقول ڈی آئی جی: ’فوٹیج میں خاور کے ساتھ کوئی دوسرا شخص نظر نہیں آیا۔ بعد ازاں ہوٹل کے چوکیدار نے انہیں گاڑی میں مردہ حالت میں پایا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’گاڑی سے ملنے والا اسلحہ فارنزک لیبارٹری بھیجا جا رہا ہے اور لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ واقعہ کس طرح پیش آیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیصل بشیر میمن کے مطابق: ’خاور حسین مئی میں اپنے والدین کو امریکہ منتقل کر چکے تھے اور واقعے سے قبل سانگھڑ میں ایک مجلس میں شرکت کے لیے گئے تھے، تاہم وہ مجلس میں شریک نہیں ہوئے۔ ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا، واقعے کی تحقیقات ہر پہلو سے جاری ہیں۔‘
خاور حسین کے قریبی دوست اور مقامی صحافی آصف رضا زئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ جب بھی کراچی سے سانگھڑ آتے تو انہیں اطلاع دیتے اور زیادہ وقت ساتھ گزارتے۔ ’اس بار وہ کب آئے، مجھے معلوم ہی نہیں ہوا۔ ابھی ان کی موت کی خبر ملی ہے، یقین نہیں آ رہا۔‘
اے آر وائی نیوز کے نمائندہ خصوصی اور خاور حسین کے قریبی دوست سنجے سادھوانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم گذشتہ دس برس سے ایک ساتھ رپورٹنگ کر رہے تھے۔ چند روز قبل ہی ہم سندھ پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے سٹڈی ٹور پر لاہور اور اسلام آباد گئے تھے۔ وہ ایک خوش مزاج اور زندہ دل شخص تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ خودکشی کر سکتے ہیں۔ اس معاملے پر مکمل اور شفاف تحقیقات ہونی چاہییں۔‘
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کی تھی۔ انہوں نے ہدایت کی کہ ’پولیس کے بہترین افسر کو تفتیش سونپ کر موت کی اصل وجہ سامنے لائی جائے۔‘
دوسری جانب کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) نے خاور حسین کی موت پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے سندھ حکومت سے فوری اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
کے یو جے عہدیداران نے کہا کہ ’حکومت کی ذمہ داری ہے کہ واقعے کے اصل محرکات کو سامنے لایا جائے اور اگر اس میں کسی فرد کا ہاتھ ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘