اٹھارویں صدی کے عام برطانوی لوگ

18ویں صدی میں کی طبقاتی تبدیلیوں نے مستقبل میں برطانیہ کی سیاست میں جمہوری روایات کو روشناس کرایا۔

1703 میں مصنف ڈینیئل ڈیفو کو ریاست کے خلاف بغاوت پر مبنی تحریر (سیدیٹیئس لائبل) کے جرم میں عوامی سزا (پِلوری) دی جا رہی ہے (وکی پیڈیا کامنز)

برطانوی معاشرے میں شاہی خاندان کے اقتدار میں سب سے زیادہ طاقت ور طبقہ امرا کا تھا۔

اس کے بعد چرچ کے عہدے دار آتے تھے۔ متوسط طبقہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ سب سے نچلی سطح پر عام لوگ تھے۔

تاریخ میں معاشرے کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کو مختلف طبقات یا کلاسز میں تقسیم کیا جاتا ہے، لیکن 18ویں صدی کے برطانوی معاشرے میں اس کو طبقات سے نہیں بلکہ اس کے سماجی مرتبے سے دیکھا جاتا تھا۔

امرا کا مرتبہ اس لیے اعلیٰ درجے کا تھا کیونکہ یہ صاحب جائیداد ہوتے تھے اور خاندانی لحاظ سے اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ جس کے پاس جتنی زمین ہوتی تھی اتنا ہی اس کا مرتبہ بلند ہوتا تھا۔

رابرٹ کلائیو جب ہندوستان سے دولت لوٹ کر لایا تو سب سے پہلے اس نے زمین خریدی تاکہ وہ امرا میں شامل ہو جائے۔

اس کے بعد بڑی رقم خرچ کر کے ہاؤس آف کامن کی سیٹ حاصل کی۔

اس کی تقلید کرتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دوسرے ملازمین نے بھی لوٹی ہوئی دولت سے زمینیں خریدیں مگر خاندانی امرا نے ان کو اپنے برابر نہیں سمجھا اور حقارت سے انہیں نو باب کہہ کر مذاق اڑایا۔

ان کے اپنے خطابات ہوتے تھے۔ مراعات ہوتی تھیں اور یہ اپنی جاگیروں پر شاندار محلات میں رہتے تھے، جن میں اکثر سو کمرے ہوا کرتے تھے۔

ان کی خدمت کے لیے 60، 70 یا 100 کے قریب ملازم ہوا کرتے تھے۔ چونکہ یہ اکثر دعوتیں کرتے تھے، اس لیے ان کا باورچی کھانا پکانے میں ماہر ہوا کرتا تھا۔

جب یہ باہر نکلتے تو گاڑی کے پیچھے ایک ملازم کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔

جائیداد کو ایک ہی خاندان میں محفوظ رکھنے کے لیے اولیت کے تحت بڑا لڑکا جاگیر کا وارث ہوتا تھا۔ اس لیے امرا کا خاندان ایک تسلسل کے ساتھ باقی رہتا تھا۔

تاجر طبقہ غیر ملکی تجارت کی وجہ سے مالدار تو ہو گیا تھا مگر جائیداد نہ ہونے کے سبب اس کو امرا کی مانند عزت و مرتبہ نہیں ملا تھا۔

اس کا اس نے یہ حل نکالا کہ وہ اپنے سرمائے کی بنیاد پر اپنے لڑکے یا لڑکی کی شادی امرا کے خاندان میں کرتا تھا تاکہ ان کی آنے والی نسل کا تعلق امرا سے ہو جائے۔

دستکار، ہنر مند اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے اپنے گھروں میں معاشرے کی ضرورت کے لیے اشیا بناتے تھے۔

اکثر تاجر انہیں خام مال دیتے تھے جیسے جولاہوں کو دھاگہ دیا جاتا تھا تاکہ وہ تاجر کی مرضی کے مطابق کپڑا تیار کرے۔

کاٹج انڈسٹری میں سب گھر والے مل کر کام کرتے تھے۔ کام کے اوقات ان کے اپنے ہوتے تھے۔ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی کام میں شرکت کرتی تھیں۔

غریب لوگ اپنے لڑکوں کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے کسی ماسٹر کے حوالے کر دیتے تھے۔ ماسٹر کی ورکشاپ دو منزلہ ہوتی تھی۔

اوپر کی منزل اس کی رہائش کے لیے استعمال ہوتی تھی اور نیچے کے حال میں ورک شاپ ہوتی تھی جہاں ان کی تربیت کی جاتی تھی۔

چار سے پانچ سال میں یہ ماہر کاریگر اور پیشہ ور ہو جاتے تھے اور شہر کے دکان داروں کے لیے کام کرتے تھے۔

ان ہنر مندوں میں موچی، درزی، بڑھائی، معمار اور قصاب وغیرہ شامل تھے۔ دیہات اور شہروں کے درمیان کلچر کا بڑا فرق تھا۔

دیہاتوں میں امرا رہتے تھے جبکہ شہروں میں تاجر، دکان دار اور مزدور طبقہ ہوا کرتا تھا جو محنت و مشقت کیا کرتے تھے۔

دیہاتوں میں اس وقت غربت پھیلی جب زمین داروں نے خالی زمین کو اپنے کھیتوں میں شامل کر لیا۔ کیونکہ کسان اس خالی زمین پر اپنے مویشی چراتے یا تھوڑی بہت سبزی ا گاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب کسانوں میں بے روزگاری پھیلی تو انہوں نے شہروں کا رخ کیا۔ بے روزگار نوجوانوں کی یہ ٹولیاں سڑکوں پر آوارہ گردی کرتی تھیں۔

فٹ پاتھ پر سوتے تھے اور در در جا کر کھانا مانگتے تھے۔ شہر میں غریبوں کی بستیوں کی حالت ابتر تھی۔

گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ ہر طرف کچرے کے ڈھیر ہوتے تھے۔ جب لوگ بیمار ہوتے تھے تو علاج کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا۔

اس صورت حال میں چرچ کی جانب سے خیراتی ادارے قائم کیے گئے لیکن یہ اس قابل نہیں تھے کہ ہر غریب کو رہائش یا کھانا دے سکیں۔

غربت کے خاتمے کے لیے حکومت نے Poor Law نافذ کیا اور غریبوں کے رہنے اور کھانے کے لیے ادارے بنائے جو ورک ہاؤس کہلاتے تھے۔

لیکن یہاں غریبوں سے سختی کے ساتھ کام تو لیا جاتا تھا مگر ان کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا۔ اس کی وجہ سے غریب لوگ یہاں سے فرار ہو جاتے تھے۔

حکومت نے غربت کو ختم کرنے کے لیے جو منصوبے بنائے تھے، انہوں نے غربت کا خاتمہ تو نہیں کیا مگر معاشرے میں غریبوں کو اس پر مجبور کیا کہ انہیں کم سے کم معاوضے پر ملازم رکھا جائے یا فیکٹریوں میں کام کرایا جائے۔

دوسرا حل یہ نکالا گیا کہ ان غریبوں سے جان چھڑانے کے لیے انہیں برطانوی کالونیوں میں آباد کر دیا جائے۔

مقصد یہ تھا کہ طبقہ اعلیٰ کے وجود کو چیلنج نہیں کیا جائے اور وہ اپنی مراعات کے ساتھ ملک پر حکومت کرتے رہیں۔

اگرچہ مورخوں نے امرا اور عوام کے تضادات کو کم کرنے کے لیے اسے سٹیٹس کا نام دیا اور اسے طبقاتی جنگ سے دور رکھا۔

جب کہ نچلے طبقے کے عوام اپنے بنیادی حقوق کے لیے برابر جدوجہد کرتے رہے اور معاشرے میں برابر تبدیلیاں لاتے رہے جس کا اظہار 1832 کے گریٹ ریفارم بل سے ہوا، جس میں عام لوگوں کی ایک خاص تعداد کو ووٹ کا حق ملا۔

اس لحاظ سے 18ویں صدی میں جو طبقاتی تبدیلیاں آئیں انہوں نے مستقبل میں برطانیہ کی سیاست میں جمہوری روایات کو روشناس کرایا۔

مزید تفصیل کے لیے Stanford E. Lehmberg اور Thomas William Heyck کی کتابThe Peoples of the British Isles پڑھیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ