تاجروں سے سرمایہ داروں تک: متوسط طبقے کی بدلتی اقدار

آخری عہد مغلیہ میں جب فرخ سیر تخت کے حصول کے لیے بنگال سے دلی آ رہا تھا تو اس نے پٹنہ میں اپنے اخراجات کے لیے ہندو تاجروں کو لوٹا تھا۔

برطانوی تاجروں کی دیکھا دیکھی ہندوستانی تاجروں نے بھی بین الاقوامی تجارت اختیار کی (پبلک ڈومین)

ہندو تاجر طبقہ مغلیہ دور میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔ تاجروں کی تجارتی کمپنیاں تھیں جو جنوب مشرق ایشیا سے تجارت کرتے تھے۔ وہ اپنی اخلاقی قدروں کی پیروی کرتے تھے۔ سادہ زندگی گزارتے تھے اور دولت کی نمائش نہیں کرتے تھے۔

مغل بادشاہ بھی اکثر ان سے قرض لیتے تھے۔ آخری عہد مغلیہ میں جب فرخ سیر تخت کے حصول کے لیے بنگال سے دلی آ رہا تھا تو اس نے پٹنہ میں اپنے اخراجات کے لیے ہندو تاجروں کو لوٹا تھا۔

جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہندوستان میں اقتدار قائم ہوا تو ہندو تجارتی کمپنیاں لوٹ مار سے محفوظ ہو گئیں۔ انہوں نے کمپنی کی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے حمایت بھی کی اور اسے قرض بھی دیا۔

کمپنی کے دور میں ہندو تاجروں کے مختلف طبقے وجود میں آئے۔ ان میں مارواڑی تاجر خاص شہرت رکھتے تھے۔ ان کا تعلق راجپوتانہ کی ریاست بیکانیر سے تھا۔ انہوں نے بہت جلد تجارت پر قابو پا لیا۔ دوسرے تاجروں کا تعلق کاٹھیاواڑ سے تھا جو اپنی تجارتی مہارت اور سرمائے کی وجہ سے مشہور تھے۔

دوسرے تاجر طبقوں کا تعلق سندھ کے دو مشہور شہروں سے تھا، حیدرآباد اور شکارپور۔ یہ بڑے مہم جو اور تاجرانہ مہارت رکھتے تھے۔

حیدرآباد کے تاجروں نے شمالی ہندوستان، برما اور جنوب مشرق ایشیا میں اپنی تجارت کو فروغ دیا۔ شکارپور کے تاجروں نے وسط ایشیا، روس، چین اور یورپ تک اپنی تجارت کو پھیلایا۔

ان تاجروں نے اپنے سرمائے سے حیدرآباد، سکھر اور شکارپور میں اپنے علیحدہ محلے آباد کیے، سکول اور کالجز کی بنیاد ڈالی، باغات لگائے، پبلک ہال تعمیر کرائے۔

سماجی سرگرمیوں کے لیے کلب کا کلچر روشناس کروایا۔ جہاں ثقافتی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ شہروں میں کتب خانے قائم کیے جس کی وجہ سے سندھی زبان اور ادب کو فروغ ملا۔

ہندو تاجروں نے ابتدائی برطانوی دور میں سیاست میں حصہ نہیں لیا اور اپنا سارا وقت تجارتی سرگرمیوں میں صَرف کیا۔ لیکن جب کانگرس کی سیاسی جدوجہد اور ہندوستان کی آزادی قریب نظر آئی تو اس وقت ہندو تجارتی کمپنیوں نے کانگریس کی مالی امداد کی۔

مقصد یہ تھا کہ آزادی کے بعد کانگریس حکومت ان کو تجارتی مواقع فراہم کرے گی۔

اس طرح 1947 کی آزادی کے بعد کانگرس کی حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعظم نہرو نے سوشلزم کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ہندو تاجروں کو کنٹرول کیا تاکہ وہ اپنے سرمائے کی وجہ سے عوام کا حق نہ مار سکیں۔ اس نے ہندو سرمایہ داروں میں نا امیدی کو پیدا کیا۔

نہرو نے متوسط طبقے کو بااثر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ سائنس اور سماجی علوم کے تحقیقی اداروں کی بنیاد ڈالی۔ ان کے لیے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے تاکہ تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ہندوستان کی ریاست میں بیوروکریسی اور انتظامی امور میں شرکت کر کے ہندوستان کے معاشرے کی اصلاح کر سکے گا۔

نہرو نے نچلے طبقے کے عوام کے لیے ان کی تعلیم اور ان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات نہیں کیں۔

جب تک ہندوستان میں کانگرس اقتدار میں رہی، ہندو تاجر طبقے کو پوری آزادی نہیں مل سکی۔ اس لیے آہستہ آہستہ تاجروں کا یہ طبقہ سوشل ازم کے بجائے ہندو مذہب کی جانب مائل ہوتا چلا گیا۔ 1996 سے لے کر موجودہ زمانے تک بی جے پی کی حکومت کو سرمایہ دار تاجر طبقے نے مدد دی اور اسے انتخابات میں کامیاب کرایا۔

ہندو متوسط طبقے کی اس تاریخی سفر کے دوران نہ صرف قدریں بدلیں بلکہ اس کی روزمرہ زندگی میں انقلاب آگیا۔ اب یہ طبقہ اپنے دولت کی نمائش کرتا ہے۔

سادہ زندگی کے بجائے عیش کی زندگی گزارتا ہے۔ رسومات کی ادائیگی پر کروڑوں روپیہ خرچ کرتا ہے۔ اپنے سرمائے سے بہت کم معاشرے کی اصلاح کے لیے ہے۔

مذہبی انتہا پسندی کو اختیار کر کے مقبولیت اختیار کرتا ہے۔ متوسط طبقے کے وہ افراد جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر امریکہ، کینیڈا یا کسی بھی یورپی ملک میں چلے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاشرے میں امیر و غریب کا فرق بہت بڑھ گیا ہے۔ متوسط طبقے نے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے تمام مراعات حاصل کر لی ہیں اور عوام کو بے بسی کی حالت میں چھوڑ دیا ہے۔

پاکستان میں آزادی کے بعد ایک نیا متوسط طبقہ ابھرا۔ سندھ سے ہندو متوسط طبقہ اجتماعی طور پر ہجرت کر کے انڈیا چلا گیا۔ پنجاب میں فسادات کی وجہ سے سکھ اور ہندو بھی مشرقی پنجاب چلے گئے۔

سندھ میں جو خلا پیدا ہوا اس کو پورا کرنے کے لیے ہندوستان سے مہاجروں کی بڑی تعداد آئی جو مقامی حالات سے ناواقف تھی، لیکن یہ مہاجرین ریاست کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے، جس کی وجہ سے ان میں اور مقامی باشندوں میں آہستہ آہستہ تنازعات پیدا ہونے لگے۔

ان تنازعات نے آگے چل کر سندھی اور مہاجروں کے درمیان فسادات کی شکل اختیار کر لی۔

چونکہ پاکستان میں جمہوری نظام قائم نہیں رہ سکا آمرانہ حکومتوں نے سیاسی استحکام کو پیدا نہیں کیا۔ تعلیمی اداروں میں روز بروز معیار گرتا رہا۔ صنعت و حرفت کی کمی نے ملازمت کے مواقع کم کر دیے۔ ان حالات میں متوسط طبقہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔

اول وہ جو اعلیٰ تعلیم انگلش میڈیم سکولوں سے حاصل کر سکے اور مقابلے کے امتحانات میں پاس ہو کر ریاست کے اعلیٰ عہدوں پر فائض ہوئے اور ان میں وہ افراد بھی تھے جو ہجرت کر کے امریکہ اور یورپ چلے گئے۔

متوسط طبقے کا نچلا حصہ ایک جانب اپنی ساری توانائی اس میں خرچ کرتا ہے کہ وہ کسی طرح اپنے سے اونچے طبقے میں شامل ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ نہ صرف محنت و مشقت کرتا ہے بلکہ بدعنوانیوں میں بھی ملوث ہو جاتا ہے۔

اسے ہر وقت یہ ڈر رہتا ہے کہ وہ مفلسی کی وجہ سے نچلے طبقے کا حصہ نہ بنا رہ جائے، لہٰذا اسی کشمکش میں اس کی زندگی گزرتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ