لاہور: سو سال پرانی سر شادی لال عمارت بحالی آخری مراحل میں

سر شادی لال بلڈنگ وہ عمارت ہے جہاں غازی علم دین کے مقدمے کی سماعت ہوئی، انہیں یہاں حوالات میں بھی بند رکھا گیا اور اسی کیس میں قائداعظم بطور وکیل بھی یہاں پیش ہوئے۔

پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ لاہور کی سو سال پرانی سر شادی لال بلڈنگ کی اصل حالت میں بحالی آخری مراحل میں ہے۔

غازی علم دین کے مقدمہ کی سماعت بھی اسی عمارت میں کی گئی تھی، انہیں یہاں حوالات میں بھی بند رکھا گیا۔ اس دوران کیس میں قائداعظم محمد علی جناح بھی بطور وکیل پیش ہوئے۔

اس عمارت کی تعمیر میں مغل، سکھ اور نوآبادیاتی طرزِ تعمیر کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ 

سابق ڈائریکٹر اور کنسلٹنٹ محکمہ آثار قدیمہ پنجاب ملک مقصود احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی فار ویمن لٹن روڈ ہے جو سر شادی لال عمارت سے ملحقہ عمارت میں قائم ہے۔ یہاں سو سال سے زائد قدیمی سر شادی لال کے نام سے منسوب عمارت کی بحالی کا کام حتمی مراحل میں ہے اور چند ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔

’بحال شدہ عمارت میں دو تصویری گیلریاں، علم دین گیلری اور سر شادی لال گیلری بھی قائم کی گئی ہیں۔‘

مقصود احمد نے بتایا کہ ’سر شادی لال لاہور ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس 1920-1934 رہے، جن کا تعلق برصغیر سے تھا۔ اس سے قبل انگریز ججز ہی فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ عمارت 1909 میں تعمیر کی گئی تھی جہاں سر شادی لال کی رہائش گاہ بھی تھی اور عدالت بھی لگتی تھی۔

1941 میں اسے فتح چند ٹرسٹ نے خرید کر فتح چند کالج برائے خواتین بنا دیا تھا۔ آزادی کے بعد اسے محکمۂ تعلیم کے حوالے کر دیا گیا۔

’غازی علم دین کو بھی یہیں پیش کیا جاتا تھا اور وہ یہیں حوالات میں بھی بند رہے۔ ان کے مقدمے میں بطور وکیل قائداعظم محمد علی جناح بھی یہیں پیش ہوتے رہے۔‘

لاہور کے ایک ناشر راج پال نے بدنام زمانہ کتاب شائع کی۔ جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہو گیا۔ مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب کو ضبط کرنے اور ناشر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مجسٹریٹ نے ناشر کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی جسے بعد میں ہائی کورٹ نے رہا کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انگریز حکومت سے مایوس ہوکر مسلمانوں نے متعدد جلسے جلوس منعقد کیے۔ مگر انگریز حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ آخر چھ اپریل 1929 کو غازی علم الدین نے ناشر کو قتل کر دیا۔ ان پر مقدمہ چلا اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔

مقصود احمد نے کہا کہ ’اس عمارت میں بنائی گئی دو الگ گیلریوں میں سر شادی لال کی تصاویر اور ان کے فیصلوں کے عکس بھی لگائے گئے ہیں۔ دوسری گیلری میں غازی علم دین کی تصاویر، ان کے خلاف کیس اور فیصلے کی کاپیاں بھی آویزاں ہیں۔ اس کے علاوہ حوالات اور جیل کی تصاویر بھی ہیں جہاں غازی علم دین کو بند رکھا گیا تھا۔‘

ریکارڈ کے مطابق ’توہین مذہب سے متعلق ایک کتاب کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کی جانب سے احتجاج اور عدالتی کارروائی شروع کی گئی تھی۔‘

کنسلٹنٹ آثار قدیمہ کے مطابق ’اس عمارت کو اصل شکل میں بحالی کے لیے کافی کام کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ قدیم اور مغلیہ طرز تعمیر کے لیے کاریگر بہت کم ہیں۔ لیکن ہماری کوشش ہے اسے اصلی حالت میں ہی بحال کیا جائے، جس کے لیے یہاں استعمال ہونے والی لکڑی تلاش کر کے مرمت کا کام کیا جا رہا ہے۔

’ٹائلیں بھی اسی طرح کی بنوا کر تبدیل کرائی جا رہی ہیں۔ لکڑی کا ڈیزائن بھی پہلے کی طرز پر ہی مرمت کر کے بحال کیا جا رہا ہے۔‘

’اس عمارت کی بحالی کا مقصد آثار قدیمہ کو محفوظ بنا کر نوجوان نسل کو تاریخی پہلوؤں سے آگاہ رکھنا ہے۔ تاہم تاریخ کے طلبہ بھی یہاں موجود مواد اور تاریخی لمحوں کی تصاویر سے استفادہ کر سکیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ