گورنمنٹ کالج لاہور کی اولین عمارت اور دارالاقامہ: حویلی دھیان سنگھ

گورنمنٹ کالج لاہور نے دھیان سنگھ حویلی ہی میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ 19 ویں صدی کی چھٹی دہائی کا واقعہ ہے۔ اس زمانے میں حویلی میں ضلع سکول قائم تھا۔ ضلع سکول انگریزوں کے طویل المیعاد تعلیمی منصوبے کا حصہ تھے۔

سکول سے پہلے دھیان سنگھ حویلی نووارد برطانوی افسروں کے لیے گرجا کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی (پروجیکٹ لاہور ویب سائٹ)

گورنمنٹ کالج لاہور (قائم شدہ 1864) مغربی ہندوستان کا پہلا اہم تاریخی ادارہ ہے۔ لوئر مال پر واقع جی سی کا پرشکوہ مینار اہلِ نظر کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

لیکن مینار و عمارت کی تعمیر (1876) سے پہلے کالج مختلف حویلیوں میں اپنے فرائض سرانجام دیتا رہا۔ ان میں سے حویلی دھیان سنگھ سب سے اہم ہے۔

گورنمنٹ کالج لاہور نے دھیان سنگھ حویلی ہی میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ انیسویں صدی کی چھٹے دہائی کا واقعہ ہے۔ اس زمانے میں حویلی میں ضلع سکول قائم تھا۔ ضلع سکول انگریزوں کے طویل المیعاد تعلیمی منصوبے کا حصہ تھے۔

1857 کی جنگِ آزادی کے فوری بعد (1858 میں) پورے ہندوستان میں ان سکولوں کی متعدد شاخیں کھولی گئیں۔

سکول سے پہلے دھیان سنگھ حویلی نووارد برطانوی افسروں کے لیے گرجا کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی۔ 1864 میں حویلی کے دو جنوبی کمرے گورنمنٹ کالج لاہور کے حوالے کر دیے گئے۔ جی سی کا یومِ تاسیس اگرچہ یکم جنوری 1864 ہے لیکن باقاعدہ تدریس ایک ماہ بعد یعنی فروری 1864 میں شروع ہوئی۔

ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر پہلے پرنسپل تعینات ہوئے۔ لائٹنر کا تعلق جرمنی کی فریبرگ یونیورسٹی سے تھا۔ لاہور آنے سے پہلے وہ کنگز کالج لندن میں عربی و اسلامی فقہ کے پروفیسر تھے۔ لائٹنر کے ہمراہ پروفیسر ڈبلیو ایچ کرینک بھی کالج سے وابستہ ہوئے۔ کرینک یونیورسٹی کالج لندن سے آئے تھے۔ ان کی تخصیص ریاضی میں تھی۔ سال کے آخر میں ٹرینیٹی کالج، کیمبرج کے استاد سی ڈبلیو الیگزینڈر نے بھی جی سی کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔

جی سی کا ابتدائی اثاثہ یہی تین استاد اور نو طلب علم تھے۔ ان دنوں تدریس کا دورانیہ دس گھنٹے فی یوم تھا۔ مضامین میں ریاضی، علم الحیوان، طبیعیات، جغرافیہ، علم النفس، برطانوی تاریخ، انگریزی، ہندی اور سنسکرت شامل تھے۔ سائنس کی تدریس انگریز اساتذہ کے سپرد تھی۔ ہندی اور سنسکرت ضلع سکول کے استاد پڑھاتے تھے۔

اسی حویلی کی بالائی منزل پر کالج کا پہلا دارالاقامہ قائم ہوا۔ دو کمروں پر مشتمل اس ہاسٹل میں چار طلبا مقیم تھے۔ ہاسٹل کے یہ کمرے حویلی کی شمالی سمت میں واقع تھے۔

 

ضلع سکول کے ہیڈ ماسٹر مسٹر بیدی، طلبا کی آسائش کا حتی الامکان خیال رکھتے تھے۔ شام کے اوقات میں وہ ہاسٹل کے لڑکوں کو ریاضی بھی پڑھاتے تھے۔ ڈاکٹر لائٹنر نے گورنر کو پیش کی جانے والی ابتدائی رپورٹوں میں مسٹر بیدی کی بہت تعریف کی ہے۔

اس زمانے میں دھیان سنگھ حویلی پچاس کنال کے عریض رقبے پر پھیلی تھی۔ راجہ دھیان سنگھ (1761 تا 1863) رنجیت سنگھ کا قابلِ بھروسہ ساتھی اور درباری تھا۔ دھیان سنگھ لمبے عرصے تک وزیرِ اعظم بھی رہا۔

حویلی دھیان سنگھ اگرچہ دھیان سنگھ کے نام ہی سے معروف ہے لیکن اس کی تعمیر میں جمعدار خوشحال سنگھ کا بھی حصہ ہے۔ خوشحال سنگھ قسمت کا دھنی تھا۔ ذات کا چمار، پیشے کا چوکیدار، رنجیت سنگھ کا وفادار۔ لیکن حویلی کو ایسا تعمیر کروایا کہ آج بھی اس کا نقشہ عظمتِ رفتہ کی یاد تازہ کرتا ہے۔

روایت ہے، حویلی کے رقبے کے حصول کے لیے گھروں کے گھر کھدوائے گئے۔ کٹڑے اجڑے، چھتیں گریں اور حویلی تعمیر ہوئی۔ بعد ازاں اسی حویلی میں دھیان سنگھ کا بدقسمت بیٹا ہیرا سنگھ قتل ہوا۔

قسمت دیکھیے آج یہ حویلی گھٹ کر دو کنال میں منہ چھپائے ہے۔ دو کنال بھی کہنے کو ہیں۔ دائیں بائیں کی رہائشی عمارتیں نکالیں تو مشکل سے کنال بچتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

دھیان سنگھ حویلی ٹکسالی گیٹ میں پیر نو گزہ دربار کے قریب واقع ہے۔ مزار سے دائیں ہاتھ کو پتلی گلی سید مٹھا ٹیچنگ ہسپتال کو مڑتی ہے۔ ہسپتال والے کوچے ہی میں داہنے ہاتھ ایک اور گلی ہے، فرش اس کا پتلی سرخ اینٹوں کا ہے۔ زمانے نے انھیں پیس کر سرمہ بنا ڈالا ہے۔ گلی آہستہ آہستہ بلند ہوتی جاتی ہے۔ اندرون کے دیگر محلوں کی طرح یہ محلہ بھی (جس کا نام بھی دھیان سنگھ حویلی ہے) ایک ٹیلے پر تعمیر ہوا ہے۔ دس قدم آگے بڑھتے ہی گلی دو شاخوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ داہنے ہاتھ ایک وسیع احاطہ ہے، جو نجی ملکیت ہے۔ مکینوں نے گفتگو کے دوران بتایا کہ ابتدا میں یہ احاطہ بھی دھیان سنگھ حویلی کا حصہ تھا۔

بائیں طرف کی گلی مزید تنگ اور بلند ہے۔ دو رویہ گودام اور دکانیں ہیں۔ انہی دکانوں کے آخر میں ایک پرانا دروازہ ہے۔ دیکھنے میں کسی کٹڑے کا چھتہ معلوم ہوتا ہے۔ محرابیں ٹوٹ چکی ہیں اور لکڑی کے آنکڑے اور چھوٹی اینٹوں کا ملبہ گر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے، کچھ ہی لمحوں میں محلہ زمین بوس ہو جائے گا۔

بائیں ہاتھ مڑتے ہی کھلا میدان آتا ہے، جس کی مغربی سمت میں حویلی دھیان سنگھ آن بان سے کھڑی ہے۔ آس پاس کی بے ہنگم عمارتیں مل کر بھی اس کا حسن نہیں چھپا سکیں۔

حویلی کی دیواریں پچیس فٹ کی جب کہ روکار قریب 20 قدموں کی ہے۔ دیواروں پر محرابوں اور ڈاٹوں کے زرد نشان ہیں۔ کہیں کہیں مٹتے نقش و نگار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ صدر دروازہ لوہے کا ہے جس میں بڑا سا تالا منہ چڑاتا ہے۔

 

اگر آپ نے گیریٹ کی تاریخ میں حویلی دھیان سنگھ کی پرانی تصویر (1864) دیکھی ہے تو آپ کو اندازہ ہو گا، ابتدا میں حویلی کی روکار میں سات دروازے تھے۔ ان دروازوں کا باہمی فاصلہ دو دو قدم تھا۔ ہر دو دروازوں کے درمیان گھاس کے چوکور قطعے تھے، جن میں گلاب اور موتیا کی بہار لہلہاتی پھرتی تھی۔ دروازوں کی لمبائی سات اور چوڑائی چار ہاتھ تھی۔ جنوبی سمت کا پہلا دروازہ محشی تھا۔ اس کے اردگرد بھورے پتھروں کی سلوں کا چوکھٹا تھا۔ ہر دروازے کے ماتھے پر اونچی قوس تھی۔ اس قوس کو چھوٹی اینٹوں کے چوڑے کنارے سے سجایا گیا تھا۔ یہ انداز مغلیہ عمارتوں میں کم، سکھ تعمیرات میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اب ان دروازوں کو پاٹ دیا گیا ہے۔ لیکن نشان ہنوز باقی ہیں۔

حویلی کے صدر دروازے کے عین سامنے ایک مسجد ہے۔ مسجد کا رقبہ مشکل سے مرلہ سوا مرلہ ہے۔ یہ مسجد تیس بتیس برس پہلے تک مندر تھا۔ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس مندر کو ڈھا کر مسجد بنا دی گئی۔ بدقسمتی سے اس تاریخی مندر کی الگ سے کوئی تصویر محفوظ نہیں ہے۔ البتہ گیریٹ کے مہیا کردہ عکس میں مندر کی شمالی دیواریں، کلس اور باڑ دیکھی جا سکتی ہے۔

1992 سے پہلے تک یہ مندر حویلی دھیان سنگھ میں قائم شدہ گورنمنٹ مڈل سکول کی ہیڈ مسٹریس کے کمرے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔

موجودہ کیفیت میں مسجد کی دیوار کو دونوں اطراف سے کاٹ کر نیم کے پرانے درخت کی جگہ باقی رکھی گئی ہے۔ محلے کے مکینوں کا کہنا ہے: ’یہ نیم مندر کی دیوار کے ساتھ بھی موجود تھا۔‘

درخت کی بلندی کم از کم چار منزل ہے۔ چھتناری نیم کا سایہ دو مرلے کو محیط ہے۔ بزرگ مکینوں کا کہنا ہے: ’یہ نیم 1950 کی دہائی میں بھی یوں ہی ایستادہ تھا۔‘ نیم کے پیچھے ہی برگد کا عریض تکیہ موجود ہے۔ اس کی بزرگی و قدامت بھی محاورہ ہے۔

موجودہ کیفیت میں دھیان سنگھ کی بالائی منزل پر استاد محمد اصغر کا خاندان مقیم ہے۔ محمد اصغر ان تین استادوں میں شامل تھے جنھوں نے تقسیم کی ابتری کے بعد دھیان سنگھ میں قائم سکول کو ازسرنو فعال کیا۔ اب اس گھر میں محمد اصغر مرحوم کے چھوٹے بیٹے خالد اصغر اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہیں۔

خالد اصغر صاحب کی عمر 75 برس ہے۔ انھوں نے بتایا: ’میں نے میٹرک تک اسی حویلی کے سکول سے پڑھا ہے۔ مجھے یاد ہے، 1950 کی دہائی میں سکول کی دو تجربہ گاہیں بہت مشہور تھیں۔ دور دور سے لوگ دیکھنے آتے تھے۔ 1947 کے ہنگاموں میں انگریز جن لیبارٹریوں کو چھوڑ کر گئے، وہ قدیم و جدید سائنسی آلات کا مرکز تھیں۔ فرش اور چھت ایسے شفاف تھے کہ ذرے کا گزر بھی مشکل تھا۔‘

خالد صاحب کے گھر کی پہلی منزل پر دو کمروں پر مشتمل گھر، 161 برس پہلے جی سی کا پہلا ہاسٹل رہ چکا ہے۔ باہر سے دیکھنے پر یہ گھر موجودہ حویلی کے دائیں پہلو میں نظر آتا ہے۔ اس سے اوپر کی دوسری منزل پر بھی دو کمرے ہیں، جن کے سامنے کھلا اور کشادہ چھت ہے۔ ان کمروں کی ظاہری تراش خراش کافی بدل چکی ہے لیکن عقبی میدان سے چھوٹی اینٹوں کی چنائی اور گرتے ہوئے گچ سے قدامت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

چھت کے ایک طرف سفیدے اور نیم کی شاخیں جھولتی ہیں اور دوسری طرف حویلی کی تاریخی دیواریں صدیوں کی کہانیاں بنتی ہیں۔

چھت کی صفائی مثالی ہے۔ بتایا گیا، ہر تین مہینے بعد چھت کو ہموار بنایا جاتا ہے۔

چھت کے اوپر ہوا کی ایک راہگزر ہے جو حویلی کے نیچے تک چلی گئی ہے۔ یہ راہگزر حویلی کے دربار ہال کے عین اوپر ہے اور جھروکے میں کھلتی ہے۔ وہی جھروکہ جہاں سکھ گرو بیٹھتے اور معاملاتِ زمانہ فیصل کرتے تھے۔ بازی گر اپنے تماشے دکھاتے تھے۔ دادہ خواہ داد کے جویا ہوتے تھے۔ دربار سجتا تھا، کوس بجتا تھا۔

پہلی منزل کا (جو 1864 میں جی سی کا پہلا ہاسٹل تھا) سب سے اہم حصہ پہلے کمرے کی تین محرابیں ہیں۔ محرابوں کی بنیادی ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ یہ محرابیں تین کھڑکیوں کے اوپر ہیں۔ ہر محراب کے تین کٹاؤ ہیں، ہر کٹاؤ خنجر کی دھار جیسا کٹیلا ہے۔ کھڑکیاں دو ہاتھ چوڑی اور تین ہاتھ لمبی ہیں۔ ان کھڑکیوں میں سے مقفل دھیان سنگھ حویلی کا مکمل جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

خالد صاحب کی ملکیت میں حویلی کے جنوبی سمت کے دو کمرے بھی ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ ان کمروں تک ان کے گھر سے ہو کر کوئی راہ نہیں جاتی۔ گھر سے باہر نکل کر مقفل حویلی کے آگے سے گزریں تو ایک گیٹ آتا ہے۔ یہ گیٹ جنوبی سمت میں ہے۔ اس کے اندر وہ کمرے واقع ہیں جن میں جی سی اور اورینٹل کالج لاہور کی ابتدائی کلاسیں ہوا کرتی تھیں۔

دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک ہال ہے جو کسی زمانے میں اصطبل کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ ہال بیس ہاتھ بلند ہے۔ اس کی چھت کی آتش دیدہ اور مکمل سیاہ ہے۔ کمرے کا گھیر دو مرلے کا ہے، جس کے بائیں ہاتھ سے سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔

حویلی دھیان سنگھ کی سیڑھیوں کی خوب صورتی یہ ہے کہ پوری حویلی کے مستطیل رقبے میں نادیدہ طور پر موجود رہتی ہیں اور اچانک کسی بلند جھروکے میں کھلتی ہیں۔ ایسی سیڑھیاں آج بھی ڈرامے اور ناٹک کے لیے بہت کارآمد ہو سکتی ہیں۔ خالد صاحب نے بتایا، 1970 کی دہائی تک یہاں ناٹک کھیلے اور رہس رچائے جاتے تھے۔ مشہور زمانہ فلم مولا جٹ اسی حویلی میں فلمائی گئی ہے۔

یہ اصطبل نما ہال دو چوکور کمروں کا پیش رو ہے۔ ان دو میں سے پہلے کمرے کا دروازہ شیشم کی لش لش کرتی مضبوط لکڑی کا ہے۔ بتایا گیا کہ موجودہ حویلی میں صرف یہی دروازہ اصل حالت میں ہے، یعنی 300 سال پرانا۔

اس کمرے کے دائیں ہاتھ لکڑی کا ایک اور دروازہ ہے جو حویلی کے دربار ہال میں کھلتا ہے۔ دربار ہال تقریباً 15 مرلے کا مستطیل احاطہ ہے۔ حویلی میں تین ہال ہیں، تیسرے مستطیل ہال کو دربار ہال کہا جاتا ہے۔ اسی میں سکھ وزیروں کا مشہور جھروکہ ہے۔ جھروکہ 20 فٹ اونچا ہے۔ جھروکے کے دائیں ہاتھ چھوٹا دروازہ ہے، پشت پر زیبائش کی اشیا کے لیے تین سنگھار لکڑیاں ہیں۔ جھروکے کو سفید روغن سے رنگا گیا ہے۔

دربار ہال میں کھلنے والے کمرے سے متصل چھوٹا کمرہ ہے۔ اس کمرے کی بابت طرح طرح کی پراسرار کہانیاں مشہور ہیں۔ ہمارے کام کی بات یہ ہے کہ اسی کمرے کو گورنمنٹ کالج لاہور کے ابتدائی تدریسی کمرے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کمرے کی چھت پرشکوہ ہے اور حسبِ سابق مکمل جلی ہوئی ہے۔

خالد صاحب کے بقول ’یہ جلاؤ ہجرت کے دنوں کی آتش زدگی کا نتیجہ ہے۔ مشہور ہے، جب یہاں مقیم خاندان ہجرت کرنے لگا تو کرب و غصے کے عالم میں انھوں نے اپنے گھر کو آگ لگا دی۔‘

اس کمرے کے پیچھے ایک تنگ و تاریک راہداری ہے۔ خاندانی روایت کے مطابق: ’یہ راہداری غیر مرئی اثرات کی حامل ہے۔‘ دھیان سنگھ محلے کے مکین حویلی کی بابت دلچسپ اور پراسرار داستانیں سناتے ہیں۔ مکینوں کے مطابق: ’حویلی کے تہ خانے میں چھ فٹ لمبے ناگ سانپوں کا جوڑا موجود ہے۔‘ یہ جوڑا کتنا پرانا ہے کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ہر پیڑھی کے لوگوں نے انھیں دیکھا ہے۔ ایک انگریز دان مکین نے ان ناگوں کے متعلق Carrying a spiritual secret کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

ان کہانیوں میں شاید صداقت نہ ہو لیکن تاریخی عمارتوں کے ساتھ جڑی یہ داستانیں انسانی ذہن کی بنیادی ساخت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔

حویلی میں بجلی نہ ہونے کے سبب چلنا پھرنا دشوار ہے۔ اس وقت حویلی سکول کی ملک ہے، جو چند قدم دور مشرق کی سمت میں ایک نئی عمارت میں قائم ہے۔ وال سٹی کے اربابِ حل و عقد اسے اپنی ملکیت میں لینے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں تاکہ اس تاریخی ورثے کو محفوظ کیا جا سکے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ