ہائی کورٹ کا گورنر خیبر پختونخوا کو نئے وزیر اعلیٰ سے بدھ کی شام تک حلف لینے کا حکم

پشاور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہدایت کی ہے کہ ’اگر گورنر نے بدھ کی شام چار بجے تک حلف نہ لیا، تو سپکر صوبائی اسمبلی نو منتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لیں۔‘

پشاور ہائی کورٹ نے منگل کو پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے گورنر خیبرپختونخوا سے بدھ کی شام تک نو منتخب وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی سے حلف لینے کا کہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے سہیل آفریدی کی حلف برداری کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہدایت کی ہے کہ ’اگر گورنر نے بدھ کی شام چار بجے تک حلف نہ لیا، تو سپیکر صوبائی اسمبلی نو منتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لیں۔‘

اس عدالتی فیصلے پر پی ٹی آئی کے سینیئر رہبنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ’عدالت نے انصاف پر مبنی فیصلہ دیا ہے اور آج جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے چند روز قبل علی امین خان گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ سہیل آفریدی کو خیبر پختونخوا کا نیا وزیر اعلیٰ نامزد کیا تھا۔  

خیبر پختونخوا اسمبلی نے پیر کو سہیل آفریدی کو 90 ووٹ کے ساتھ صوبائی وزیراعلیٰ منتخب کیا۔ 

صوبائی اسمبلی سے انتخاب کے باوجود سہیل آفریدی ابھی تک بطور وزیر اعلیٰ حلف نہیں اٹھا پائے ہیں۔

پشاور سے اطلاعات کے مطابق نو منتخب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کے انتخاب اور حلف برداری سے متعلق سمریاں گورنر ہاؤس پہنچ گئی ہیں۔

وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے متعلق سمری صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ نے ارسال کی تھی، جبکہ حلف برداری کی سمری سپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی نے بھجوائی۔

پی ٹی آئی کی درخواست

پشاور ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ علی امین گنڈاپور نے استعفیٰ دیا تھا اور گورنر نے منظور نہیں کیا جبکہ آئین میں منظور نہ کرنے کی کوئی شرط موجود نہیں ہے اس وجہ سے نو منتخب وزیر اعلٰی سے حلف لیا جائے۔ 

کیس کی سماعت چیف جسٹس عتیق شاہ نے کی اور پی ٹی آئی کے وکیل اور سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ نئے وزیر اعلیٰ کے لیے انتخابی عمل بھی مکمل ہوچکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا گورنر نے استعفیٰ منظور کیا ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ گورنر کی جانب سے استعفیٰ منظور نہ کرنے کا آئین میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ ہم اس درخواست کو جوڈیشل سائڈ پر نہیں بلکہ انتظامیہ سائڈ پر دیکھ رہے ہیں اور اسی پر سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ آئین نے چیف جسٹس کو اختیار دیا ہے کہ وہ کسی کو بھی حلف لینے کے لیے نامزد کر سکتے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ نیا وزیر اعلیٰ منتخب ہوا ہے اور سمری بھی گورنر کو بھیجی گئی ہے لیکن گورنر کا کہنا ہے کہ وہ صوبے سے باہر ہیں اور 15 اکتوبر کو واپس آئیں گے۔

سلمان اکرم راجہ نے بتایا، ’گورنر کو پتہ تھا کہ 13 کو نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا، جان بوجھ کر انہوں نے اس کو ڈیلے کرنے کی کوشش کی۔‘

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو سمری سپیکر نے گورنر کو حلف کے لیے بھیجی ہے، کیا وہ اس کو پہنچ چکی ہے، اس کی کوئی رسید ہے؟

سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ سپیکر نے حلف کے لیے سمری بھیجی ہے اور سپیکر خود بھی یہاں پر موجود ہے جبکہ اس وقت صوبے میں حکومت نہیں ہے، صوبے کو ایسا نہیں چھوڑا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کی رائے ضروری ہے، گورنر کی رائے آ جائے تو پھر اس پر ہم کچھ کرسکتے ہیں۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گورنر کراچی میں ہیں اور روزانہ وہاں سے ایک پرواز پشاور آتی ہے اور گورنر کل (بدھ) ایک بجے پشاور پہنچیں گے۔

اسی پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا گورنر کے پاس نجی طیارہ نہیں ہے جس کے ذریعے وہ ایسی صورتحال میں سفر کر سکے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گورنر کا کہنا ہے کہ کل (بدھ) تین بجے علی امین گورنر ہاؤس آکر استعفے کی تصدیق کریں۔

اس پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ گورنر نئے وزیر اعلیٰ سے حلف لیں گے یا نہیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گورنر آ جائیں تو پھر وہ اس حوالے سے بتائیں گے۔

عامر جاوید نے بھی عدالت کو بتایا کہ جب گورنر آ جائیں گے تو وہ اس کو قانون کے مطابق دیکھیں گے۔

جے یو آئی کی درخواست

جے یو آئی نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ 13 اکتوبر ہو سہیل آفریدی کا بحیثیت وزیر اعلیٰ انتخاب غیر آئینی ہے کیونکہ سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے استعفے کی منظوری ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔

درخواست جے یو آئی کے پارلیمانی رہنما مولانا لطف الرحمٰن نے بیرسٹر یاسین رضا کے ذریعے دائر کی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ جب تک سابق وزیر اعلی کا استعفیٰ باضابطہ طور پر منظور نہیں ہوتا، نئے وزیر اعلی کا انتخاب قانونی طریقہ کار کے خلاف ہے۔

درخواست میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا نے علی امین گنڈا پور کو 15 اکتوبر کو طلب کیا ہے تاکہ ان کے استعفے کی تصدیق کی جا سکے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی رخصت کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا لطف الرحمٰن نے کہا کہ نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب آئینی تقاضوں کو پورا کیے بغیر کیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اتنی جلدی میں یہ انتخاب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ سابق وزیر اعلی کو رسمی طور پر عہدہ چھوڑنے دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست