پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ 13 اور 14 ستمبر کی درمیانی شب خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز کی مختلف کارروائیوں کے دوران 31 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے پیر کو جاری کیے جانے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے لکی مروت میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کارروائی کی جس میں فائرنگ کے تبادلے میں ’انڈیا کے حمایت یافتہ‘ 14 عسکریت پسند مارے گئے۔
گذشتہ ہفتے 10 سے 13 ستمبر کے درمیان اس صوبے کے دو اضلاع باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج سے دو علیحدہ علیحدہ جھڑپوں میں 35 عسکریت پسند مارے گئے جبکہ 12 سکیورٹی اہلکاروں کی جان گئی تھی۔
افغانستان کی سرحد پر واقع پاکستانی ضلع باجوڑ گذشتہ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ سے عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی وجہ سے خبروں میں ہے، جہاں ماموند کے علاقے سے ہزاروں کی تعداد میں مقامی افراد کو نقل مکانی بھی کرنا پڑی۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں کوئی بڑا آپریشن نہیں کیا جا رہا بلکہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر ٹارگٹڈ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر ضلع بنوں میں کی جانے والی ایک اور کارروائی میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 17 عسکریت پسندوں کا صفایا کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علاقے میں کسی بھی عسکریت پسند کی موجودگی اور صفائے کے لیے سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔
پاکستان ایسے حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین کے استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کرتا آیا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے اتوار کو ضلع بنوں کے دورے کے موقع پر ایک بیان میں کہا کہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت پاکستان مخالف ’دہشت گردوں‘ کی ’پشت پناہی‘ اور حمایت یا پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سے ایک راستے کا انتخاب کریں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ہمراہ بنوں کے فوجی ہسپتال میں زیر علاج فوجی اہلکارں سے ملاقات کے بعد میڈیا کے لیے ایک بیان میں کہا کہ ’افغانستان سے یہ دہشت گرد پاکستان آتے ہیں اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر یہ خوارج ہمارے فوجیوں اور بھائیوں، بہنوں اور عام شہریوں کو شہید کر رہے ہیں۔‘
وزیراعظم شہباز شریف کا بیان میں کہنا تھا کہ ’میں افغانستان کی حکومت کو آج واضح پیعام دینا چاہتا ہو کہ وہ پاکستان کے ساتھ خلوص کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں تو آئیں ہم تیار ہیں لیکن اگر وہ دہشت گردوں کا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں افغانستان کی عبوری حکومت سے کوئی سروکار نہیں۔‘