نوجوانوں کو بلند شرح اموات کے ’ابھرتے بحران‘ کا سامنا: تحقیق

لانسنٹ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق نے 1990 سے 2023 تک 204 ممالک اور خطوں میں عمر اور جنس کے لحاظ سے 375 بیماریوں اور زخموں اور 88 خطرناک عوامل کا تجزیہ کیا۔

بچوں میں اموات کی شرح میں سب سے زیادہ کمی آئی خاص طور پر مشرقی ایشیا میں، جہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں 68 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جس کی وجہ بہتر غذائیت، ویکسینز اور مضبوط صحت کے نظام تھے (اینواتو)

ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کو نوجوانوں میں اموات کی بڑھتی ہوئی شرح کے ایک ’ابھرتے ہوئے بحران‘ کا سامنا ہے، اگرچہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران عالمی صحت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

لانسنٹ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق ’گلوبل برڈن آف ڈیزیز‘ نے 1990 سے 2023 تک 204 ممالک اور خطوں میں عمر اور جنس کے لحاظ سے 375 بیماریوں اور زخموں اور 88 خطرناک عوامل کا تجزیہ کیا۔ یہ اپنی نوعیت کی سب سے جامع تحقیق ثابت ہوئی۔  

تحقیق میں بتایا گیا کہ 2023 میں عالمی اوسط عمر 1950 کے مقابلے میں 20 سال سے زیادہ بڑھ گئی اور تمام 204 ممالک اور خطوں میں اموات کی شرح میں کمی واقع ہوئی۔ زندگی کی اوسط مدت اب وبا سے پہلے کی سطح پر واپس آ گئی ہے، جو خواتین کے لیے تقریباً 76 سال اور مردوں کے لیے 71 سال، 1950 کے مقابلے میں تقریباً 20 سال زیادہ۔

تاہم تحقیق نے خبردار کیا کہ امریکہ کے خطے میں نوجوانوں اور نوعمروں میں خودکشی، منشیات اور شراب کے استعمال کے باعث اور سب صحارا افریقہ میں متعدی امراض اور حادثات کے نتیجے میں اموات کی بلند شرح ایک ’ابھرتا ہوا بحران‘ بن رہی ہے۔

2011 سے 2023 کے درمیان شمالی امریکہ میں 20 سے 39 سال کی عمر کے افراد میں اموات میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، جس کی بڑی وجہ خودکشی، منشیات کا زیادہ استعمال اور شراب نوشی تھی۔ 

اسی عرصے کے دوران خصوصاً مشرقی یورپ اور کیریبین میں پانچ سے 19 سال کی عمر کے بچوں کی اموات میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔

بچوں میں اموات کی شرح میں سب سے زیادہ کمی آئی خاص طور پر مشرقی ایشیا میں، جہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں 68 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جس کی بڑی وجہ بہتر غذائیت، ویکسینز اور مضبوط صحت کے نظام تھے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ 1950 سے 2021 کے درمیان سب صحارا افریقہ میں 5 سے 14 سال کے بچوں کی اموات پہلے کے اندازوں سے زیادہ تھیں، جس کی بڑی وجہ سانس کی بیماریوں، تپ دق، دیگر متعدی امراض اور حادثات کی بلند شرح تھی۔

تحقیق کی شریک مصنفہ ایمانویلا گاکیدو نے خبردار کیا کہ ’غریب ممالک میں دہائیوں کی محنت سے حاصل ہونے والی صحت کی برابری کا فرق حالیہ بین الاقوامی امداد میں کٹوتیوں کے باعث خطرے میں ہے۔ یہ ممالک بنیادی علاج، دوائیوں اور ویکسینز کے لیے عالمی فنڈنگ پر انحصار کرتے ہیں، اور اگر یہ مدد ختم ہو گئی تو فرق مزید بڑھ جائے گا۔‘

غیر متعدی امراض، جیسے دل کے امراض، فالج اور ذیابیطس، اب دنیا بھر میں کل اموات اور بیماریوں کے دو تہائی کے ذمہ دار ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2021 میں موت کی سب سے بڑی وجہ بننے کے بعد کووِڈ19 2023 میں فہرست میں 20ویں نمبر پر آ گیا اور دل کے امراض اور فالج دوبارہ سب سے زیادہ مہلک بیماریاں بن گئیں۔

تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً نصف اموات اور معذوری کے کیسز کو اہم خطرناک عوامل میں تبدیلی کر کے روکا جا سکتا ہے، جیسے خون میں شوگر کی زیادتی اور جسمانی وزن میں کمی لانا۔

کرسٹوفر مرے کے مطابق، ’دنیا کی بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی اور بدلتے ہوئے خطرناک عوامل نے عالمی صحت کے ایک نئے دور میں قدم رکھ دیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ شواہد حکومتوں اور صحت کے ماہرین کے لیے ’ایک انتباہ‘ ہیں کہ وہ تیزی سے اور دانشمندی کے ساتھ ان خطرناک رحجانات کا مقابلہ کریں جو عوامی صحت کی ضروریات کو نئی شکل دے رہے ہیں۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ 2023 میں دنیا بھر میں اموات اور بیماریوں کا تقریباً نصف حصہ 88 قابلِ انسداد خطرناک عوامل سے منسلک تھا، جن میں بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر)، فضائی آلودگی، تمباکو نوشی، بلند شوگر لیول، کم پیدائشی وزن، زیادہ جسمانی وزن (بی ایم آئی)، خراب کولیسٹرول (ایل ڈی ایل)، گردوں کی خرابی، بچوں کی نشوونما میں ناکامی اور سیسے کا استعمال شامل ہیں۔

ذہنی صحت کے مسائل میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ انزائٹی کے امراض میں 63 فیصد اور افسردگی (ڈپریشن) میں 26 فیصد اضافہ ہوا۔

ماہرین کے مطابق، نتائج اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پالیسی سازوں کو صحت کی ترجیحات میں صرف بچوں کی اموات کو کم کرنے پر نہیں بلکہ نوعمروں اور نوجوانوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

پروفیسر مارک ل وہلکوسٹ نے اس تحقیق کو ’شاندار‘ اور ’انسائیکلوپیڈک‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا، ’یہ اس وقت سامنے آئی ہے جب وہ ادارے جو اس قسم کے معلوماتی ذخیرے کی اشاعت کے ذمہ دار ہیں، سیاسی طور پر کمزور اور نشانے پر ہیں۔ مزید یہ کہ اصلاحی اقدامات کے لیے دستیاب وقت بھی محدود ہے، خصوصاً ماحولیاتی تبدیلی، تنازعات اور ادارہ جاتی کمزوریوں کے پیش نظر۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق