ایک نئی تحقیق میں ماہرین طبیعات نے بتایا ہے کہ تیز ترین دھار چھری سے آہستہ آہستہ پیاز کاٹ آنکھوں میں جلن سے بچا جا سکتا ہے۔
گھر میں کھانے بنانے والوں کے لیے مانوس اور تکلیف دہ تجربہ یعنی پیاز کاٹتے وقت آنسو آنا آنکھ میں ہونے والے کیمیائی ردعمل کا نتیجہ ہے۔ پیاز میں سن پروپنتھیل ایس اوکسائیڈ پایا جاتا ہے جو بخارات میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ پیاز کاٹنے پر یہ مرکب ہوا میں خارج ہوتا ہے اور قرنیہ میں عصبوں کے سرے کو متحرک کرتا ہے۔
پی این اے ایس جریدے میں میں شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں ان عوامل کا جائزہ لیا گیا جن کی وجہ سے پیاز کاٹتے وقت مائع مختلف مقدار اور بخارات کی شکل میں خارج ہوتا ہے۔
تحقیق میں، سائنس دانوں نے پیاز کو ایک خاص تیز دھار آلے کی مدد سے کاٹا۔ اس آلے میں مختلف قسم کے بلیڈز لگائے جا سکتے ہیں نیز پیاز کے ٹکڑوں پر پینٹ کی تہہ چڑھائی تاکہ کاٹنے کے عمل کو بہتر طور پر دیکھا جا سکے۔
ہر تجربے میں، سائنس دانوں نے چجری کا سائز، دھار اور کاٹنے کی رفتار کو بدلا، اور استعمال سے قبل چھریوں کو قریب سے دیکھنے کے لیے خوردبین استعمال کی۔
مطالعے کے دوران ریکارڈ کی گئی ویڈیوز نے پیاز کے رس کی مقدار میں اختلافات کو ظاہر کیا جو کہ اس بات کا پیمانہ ہے کہ ہر بار کاٹنے سے آنکھوں میں جلن ہونے کا کتنا امکان رہا؟
محققین کو معلوم ہوا کہ پیاز کے رس کے چھینٹوں کا براہ راست تعلق چھری کی دھار کی تیزی اور اس رفتار کے ساتھ ہے جس سے پیاز کاٹا جاتا ہے۔ مطالعے سے ظاہر ہوا کہ جتنی تیز چھری اور جتنا آہستہ کاٹنے کا عمل ہو اتنے ہی کم چھینٹے اڑتے ہیں۔
محققین نے لکھا کہ ’دھارکی تیزی اور رفتار میں منظم تبدیلی کر کے ہم نے پایا کہ تیز تر یا کند دھاریں خارج ہونے والے قطروں کی تعداد اور توانائی دونوں کو نمایاں طور پر بڑھا دیتی ہیں۔‘
کند چھریاں پیاز پر دباؤ ڈالتی دکھائی دیں، جس سے اس کی تہیں اندر کی طرف جھک جاتیں، اور جیسے جیسے کٹ آگے بڑھتا گیا، یہ تہیں واپس سیدھی ہو کر رس کو ہوا میں باہر کی طرف دھکیل دیتیں۔
محققین نے مشاہدہ کیا کہ جب رس کے قطرے ہوا میں اچھلے تو وہ چھوٹے چھوٹے قطروں میں تقسیم ہو گئے، جس سے وہ زیادہ دیر تک ہوا میں معلق رہے۔
انہوں نے بھی دیکھا کہ تیزی سے کاٹنے پر رس زیادہ بنتا ہے اور اسی وجہ سے آنکھوں میں جلن پیدا کرنے والی نمی بھی زیادہ بنتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مطالعے کے مصنفین نے مشورہ دیا کہ ’کم چھینٹوں کے لیے چھریاں تیز رکھیں اور آہستگی سے کاٹیں۔‘
اپنے مطالعے کے دوران سائنس دانوں نے اس عام تصور کو بھی پرکھنے کا فیصلہ کیا کہ کاٹنے سے پہلے پیاز کو ٹھنڈا کرنے سے آنکھوں میں کم جلن ہوتی ہے۔
انہوں نے پیاز کو ایک درجے فارن ہائٹ پر 12 گھنٹے کے لیے فریج میں رکھا اور نتائج کا موازنہ کمرے کے درجہ حرارت پر رکھے نمونوں سے کیا۔ محققین کو دونوں صورتوں کے درمیان کوئی قابل ذکر فرق نہیں ملا۔ انہوں نے پیاز کو کاٹنے اور قطرے پیدا ہونے پر درجہ حرارت کے اثرات کا زیادہ سختی سے جائزہ لینے کے لیے مزید تجربات کی تجویز دی۔
اگرچہ ان کی تحقیق پیاز تک محدود رہی لیکن سائنس دانوں نے نشان دہی کی کہ ان کے نتائج کچن میں ایروسولز اور بوندوں کی دوسری اقسام کم کرنے کے لیے اہم اثرات رکھ سکتے ہیں، جن میں وہ چھینٹے بھی شامل ہیں جو غذا سے پھیلنے والی بیماریوں کو پھیلا سکتے ہیں۔
انہوں نے مطالعے میں لکھا: ’یہ کام کچن میں جراثیم سے آلودہ اڑتی ہوئی بوندوں کو محدود کرنے کے لیے دھار کو تیز رکھنے کے معمولات کی اہمیت اجاگر کرتا ہے، کیوں کہ سبزیوں کے مضبوط بیرونی چھلکوں کے باعث ان بوندوں میں اضافی پھٹاؤ کی توانائی آ جاتی ہے۔‘
© The Independent