بلوچستان کے ضلع خضدار اور ملحقہ علاقوں کے معیاری پیاز کی ڈیمانڈ کراچی سبزی منڈی میں بہت زیادہ ہے، جہاں سے ہر سال بحری جہازوں کے ذریعے یہ پیاز بیرون ملک برآمد کیے جاتے ہیں، مگر رواں سال کراچی سے پیاز برآمد نہ ہونے سے پیاز کے کاشت کار پریشان ہیں۔
وادی زہری، جھاؤ، زیدی، ساسول اور جیوا بلوچستان کے ان علاقوں میں شامل ہیں جہاں کاشت کار شوق سے پیاز اُگاتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں بڑی گاڑیاں ملک کی مختلف منڈیوں میں پہنچتی ہیں۔
خضدار کی تحصیل زہری کے پیاز کی ڈیمانڈ سعودی عرب میں بھی ہے۔ گذشتہ سال کراچی ویجیٹیبل ایکسپو میں سعودی عرب کے ایک وفد نے شرکت کی تھی جہاں انہوں نے خضدار کے پیاز کو کافی پسند کیا تھا، پھر ان کاشت کاروں کو سعودی عرب لے جایا گیا تھا۔
اس علاقے کے کاشت کار ظہور زہری رواں سال فصل کاشت کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میری فصل تیار تھی اور میں برآمد و مناسب قیمت کے انتظار میں تھا، مگر یہ لاکھوں روپے کی تیار فصل موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہوئی۔‘
بقول ظہور: ’میں نے ایک پروجیکٹ کے تحت ادھار پیسے لے کر یہ پیاز کی فصل آرگینک طریقے سے اگائی تھی، جس کو ڈرپنگ سسٹم کے ذریعے پانی دیا جاتا تھا۔ حکومت اگر پہلے کی طرح برآمد کی پالیسی بناتی تو ہمیں یہ نقصان اٹھانا نہ پڑتا۔‘
بلوچستان کی سبزیوں اور پھلوں کے لیے کراچی کی سبزی منڈی قریب سمجھی جاتی ہے، مگر رواں سال تمام سبزیاں کرائے کی رقم بھی نہ بنا سکیں۔ زمیندار اگلی فصل کے لیے سبزی منڈیوں کے کمیشن ایجنٹس سے فصل تیار کرنے کے لیے ادھار لیتے ہیں اور فصل تیار ہونے پر اسی ایجنٹ کو بھیجنے کا پابند ہوتا ہے، چاہے قیمت بالکل کم کیوں نہ ہو، مگر ایجنٹ کے پاس مال آنا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوجوان کاشت کار محمد آصف اپنی وسیع رقبے پر پھیلی پیاز کی فصل سے ناخوش رہے۔ انہوں نے اپنی ایک پیاز کی تیار فصل کو ایسے ہی چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتائی کہ ’کراچی سبزی منڈی میں 100 کلو پیاز فی بوری 800 روپے کا فروخت ہوتا ہے جبکہ گاڑی والے ہم سے اس بوری کا کرایہ 813 روپے لیتے ہیں۔ میں نے جب پیاز منڈی کے لیے بھیجا تو مزدوری و باردانے وغیرہ کے خرچے اپنی جیب سے بھرنے پڑے۔ باقی بیج، کھاد، پانی کے خطیر خرچے اور ہماری مشقت ایک طرف ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے خضدار میں پیاز کی مختلف فصلوں کا دورہ کیا۔ ایک کاشت کار نے وہ جگہ دکھائی جہاں کئی من پیاز پھینک دیے گئے تھے جبکہ دوسرے کھیت میں محمد شریف نامی کاشت کار نے اپنی تیار فصل میں سے ایک دانہ بھی نہیں نکالا اور پوری فصل میں ہل چلا دیا۔
محمد شریف نے بتایا: ’کراچی سبزی منڈی کے لیے کئی بار پیاز بھیجا تھا لیکن وہاں کوئی خرید ہی نہیں رہا تھا، اس لیے کچھ نکال کر پھینک دیا جبکہ باقی فصل میں ٹریکٹر چلا دیا۔ اب اس کا ادھار ہمارے سر پر ہے۔‘
خضدار میں اگنے والے پیاز کو کاشت کاروں سے فی کلو آٹھ روپے میں خریدا جاتا ہے اور وہی پیاز سبزی مارکیٹوں میں سو روپے سے زیادہ کا فی کلو فروخت ہوتا ہے۔ یوں اصل حقدار محنت اور مشقت کے باوجود اپنے حق سے محروم رہ جاتا ہے۔
کاشت کار عارف علی اور نذیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت زمینداروں کو ریلیف فراہم کرے۔ جس دام میں ہم سے سبزیاں خریدی جاتی ہیں، اس دام میں منڈیوں میں سبزیاں عوام کو نہیں ملتیں۔ پانچ روپے والی چیز کئی ایجنٹوں کے بعد دو سو روپے تک کی ہو جاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تیار کئی من پیاز دھوپ پر پڑے ہیں، کاشت کار نقصان کی وجہ سے پریشان اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ فصل کے ایک ٹکڑے کو نکالنے کے لیے دو سو روپے مزدوری دیتے ہیں، اس طرح دو سو روپے کرایہ ہے۔ اس سال تو قرضوں میں ڈوب گئے ہیں، اگلے سال بھی یہ قرضے دیتے رہیں گے۔‘
کاشت کاری نہ ہونے سے پوری معیشت پر برے اثرات ہوتے ہیں۔ زراعت پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر رواں سال یہ حیثیت انتہائی کمزور ہونے سے تجارتی نظام بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
زرعی ماہر ڈاکٹر محبوب کہتے ہیں کہ زراعت متاثر ہونے سے بازاروں میں خرید و فروخت میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ’حکومت زمینداروں سے ہمدردی اور برآمد کے بجائے بیرونی ممالک سے سبزیاں درآمد کرتی ہے۔‘