ایک نئے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ چہرے کی جھریاں ختم کرنے کے لیے بوٹوکس کا استعمال اور پلاسٹک سرجری وہ بڑے کام ہیں جن کا سینکڑوں افراد نے اعتراف کیا ہے کہ وہ کام کے مقامات پر عمر کے معاملے میں برتنے جانے والے امتیاز سے نمٹنے کے لیے کریں گے۔
45 سال سے زائد عمر کے ملازم نوکری یا ترقی پانے کے لیے خود کو کم عمر دکھانے کی خاطر جمالیاتی طریقہ علاج اور سرجری پر غور کر رہے ہیں۔ سنٹر فار ایجنگ بیٹر نے 45 سال سے زائد عمر کے 567 افراد کا سروے کیا اور کہا کہ نتائج ’حوصلہ شکن‘ ہیں۔
رفاہی ادارے کے مطابق کہ 15 فیصد ملازمین نے کہا کہ اگر پلاسٹک سرجری ان کی نوکری یا ترقی میں مدد کر دے تو وہ اس پر غور کریں گے۔ اس عمر کے ہر پانچ میں سے ایک شخص (20 فیصد) نے کہا کہ وہ بوٹوکس یا فلرز پر غور کریں گے جبکہ لگ بھگ ہر پانچ میں سے دو (41 فیصد) نے کہا کہ اگر بال رنگوانا کام کی جگہ پر ترقی میں مددگار ہو تو وہ اس پر غور کریں گے۔
سنٹر فار ایجنگ بیٹر کی چیف ایگزیکٹیو کیرل ایسٹن نے کہا کہ یہ ’حوصلہ شکن امر ہے کہ بڑی عمر کے کارکنوں کو کام کی جگہ پر برابری حاصل کرنے کے لیے ایسے انتہائی اقدامات پر غور کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم نے ملازمت کے ایسے امیدواروں کی بات سنی جنہیں وسیع مہارت اور تجربے کے باوجود ملازمت کی سینکڑوں درخواستوں کے بعد بلا وجہ مسترد کر دیا گیا اور جو کہتے ہیں کہ وہ محسوس کر سکتے ہیں کہ جیسے ہی ممکنہ آجر ان کی عمر جانتے ہیں تو فوراً سرد مہری اختیار کر لیتے ہیں۔‘
عمر کے بارے میں نامناسب تبصرے ساتھیوں اور مینیجرز کی طرف سے عام سامنے آئے۔ سروے میں شامل 16 فیصد نے کہا کہ وہ کام پر اس رویے کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ ہر پانچ میں سے دو (39 فیصد) نے کہا کہ ایسا اکثر ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم پلاسٹک سرجن چارلز ڈورنٹ، جو پورٹس ماؤتھ کے کوئین الیگزینڈرا ہسپتال میں کام کرتے ہیں، نے خبردار کیا کہ اگرچہ یہ طریقہ علاج اور سرجری خوداعتمادی بڑھا سکتے ہیں لیکن ان میں خطرات موجود ہیں اور عمر کی وجہ سے برتے جانے والے تعصب کا مقابلہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ذاتی طور پر میرا نہیں خیال کہ یہ کسی بھی قسم کی جراحی یا جراحی کے بغیر طریقہ علاج کے لیے اچھا جواز ہے۔ یہ سب چیزیں کسی نہ کسی درجے کے خطرے کے ساتھ آتی ہیں اور ذمہ داری کسی فرد پر نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی توقعات پر پورا اترے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ (لوگوں کا) ذاتی انتخاب ہونا چاہیے تاکہ ان کی خوداعتمادی اور اعتماد بہتر ہو اور وہ اپنی شخصیت کے معاملے میں زیادہ سکون محسوس کریں، اور اس کا تعلق اصل مسئلے یعنی عمر پر مبنی تعصب کے حل کے ساتھ نہ ہو۔‘
کیرل ایسٹن نے مزید کہا کہ ’بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں ہمارے پاس ایسی قانون سازی اور تعلقات عامہ کی پالیسیاں موجود ہیں جنہوں نے کام کی جگہ پر عمر کی وجہ سے برتے جانے والے تعصب کا خاتمہ کر دیا ہے۔ لیکن اعدادوشمار اور لوگوں کے تجربات اس کے برعکس کہانی بیان کرتے ہیں۔‘
’بڑی عمر کے کارکنوں کے بارے میں پھیلے ہوئے، بے بنیاد اور مسلسل قائم رہنے والے دقیانوسی تصورات بہت سے لوگوں کو بے روزگار کر رہے ہیں، حالاں کہ ان کی کام کرنے کی زندگی کا ایک تہائی حصہ ابھی باقی ہوتا ہے۔‘
© The Independent