پاکستان، افغانستان تنازع: کردار ادا کرنے کو تیار ہوں مگر زمین ہموار کرنا ہو گی، فضل الرحمن

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’ہمیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے کتنے ضروری ہیں؟‘

جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تنازع کے خاتمے اور دونوں ممالک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

اسلام آباد میں کنونشن سینٹر میں منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’ہمیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے کتنے ضروری ہیں؟‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حال ہی میں حالات شدید کشیدہ ہوئے ہیں جہاں پاکستان فوج کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب افغانستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں اس کے 23 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ 29 زخمی ہوئے۔

آئی ایس پی آر نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ افغان طالبان اور انڈیا کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے پاکستان - افغانستان سرحد پر بلااشتعال حملہ کیا، جس کا مقصد پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ’عدم استحکام اور دہشت گردی کو فروغ‘ دینا تھا۔

بیان کے مطابق پاکستان فوج نے طالبان کی سرحد پار متعدد پوسٹس، کیمپس اور تربیتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے 21 ٹھکانے عارضی طور پر قبضے مییں لیے اور ’دہشت گرد کیمپ‘ تباہ کر دیے۔

آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ ان کارروائیوں میں 200 سے زائد طالبان و عسکریت پسند مارے گئے، متعدد زخمی ہوئے جبکہ طالبان کے انفراسٹرکچر کو سرحدی پٹی میں وسیع نقصان بھی پہنچا۔

اس سارے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ’میں اپنی حکومت کو یہ مشورہ دوں گا کہ ہم اس سارے معاملے کو انتہائی تحمل، بردباری، سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ دیکھیں۔

’میں یہ کوشش کروں گا کہ دونوں ممالک رابطے میں آجائیں اور بات چیت کے ذریعے سے ایک دوسرے کی شکایات کو دور کریں، اور ایک مستقل دوست پڑوسی کی طرح رہنے کا عہد کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان میں ایک نئی حکومت ہے۔ تین چار سالوں میں وہ اتنی بالغ النظر نہیں بن جاتی کہ ہم ان سے عالمی معیار کے مطابق سفارتی، سیاسی، تجارتی توقعات رکھیں یا ان سے یہ توقع رکھیں کہ وہاں پر کوئی منظم فوج وجود میں آ گئی ہے، وہاں کا انٹیلی جنس نیٹ ورک ابتدائی مراحل میں ہے جبکہ پاکستان ہر لحاذ سے عالمی معیار پر پورا اترتا ہے۔‘

سربراہ جے یو آئی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن زمین ذرا ہموار کرنا ہوگی۔ دونوں طرف اگر گرمی کے ماحول میں ہم بات کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ نتائج سامنے نہ آ سکیں۔

’جنگ بندی بھی ہو گئی ہے تو میں سوچتا ہوں کہ اب زبان بندی بھی ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈّا اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنا بیان بازیاں کرنا اس سے بھی اگر ہم رک جائیں تو ایک ماحول بن جائے گا کہ ہم باہمی رابطوں سے مسئلے کو حل کریں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہندوستان جو حال ہی میں ہم پر حملہ کر چکا ہے اور ہم اس وقت بھی ان کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور ہندوستان اب بھی دھمکیاں دے رہا ہے۔

’کیا مغربی محاذ کھولنا ایک بہترین جنگی حکمت عملی ہے؟ کیا یہ ریاست کے لیے مفید راستہ ہے؟

مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ’ان سارے عوامل کو دیکھ کر ہمیں پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کو اول رکھنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ ہمیں پڑوسی ممالک کے استحکام اور داخلی امن کو اپنے لیے ایک مفاد تصور کرنا چاہیے اور اس کی حفاظت کے لیے پھر ہمیں حکمت عملی کے ساتھ جانا ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان