کابل میں دھماکہ: نور ولی محسود کی موت کی باضابطہ تصدیق نہ ہو سکی

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر کہا: ’واقعے کی تحقیقات جاری ہیں، لیکن ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے اور سب کچھ ٹھیک ہے۔‘

طالبان سکیورٹی اہلکار 7 جون 2025 کو کابل میں ایک چوکی پر نگرانی کر رہے ہیں (وکیل کوہسار/ اے ایف پی)

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعرات کی رات ہونے والے دھماکے کے حوالے سے طالبان انتطامیہ نے دعویٰ کیا کہ کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا، تاہم سوشل میڈیا پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ نور ولی محسود کی موت کی افواہیں گردش کرتی رہیں، جن کی باضابطہ تصدیق نہ ہوسکی۔

افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر کہا: ’واقعے کی تحقیقات جاری ہیں، لیکن ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے اور سب کچھ ٹھیک ہے۔‘

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پہلا زوردار دھماکا مقامی وقت کے مطابق رات 9:50 (پاکستانی وقت کے مطابق رات 10:20) کے قریب ہوا جبکہ اس کے چند منٹ بعد ہی دوسرے دھماکے کی آواز سنی گئی۔ 

دوسری جانب سماجی رابطوں کے ویب سائٹ پر مختلف صارفین کی جانب سے کہا جا رہا ہیں کہ کابل میں دھماکے کے نتیجے میں کاالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود مارے گئے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے کسی حملے کی سرکاری تصدیق بھی نہیں کی گئی ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان کے مبینہ حملوں پر اسلام آباد نے لب کشائی نہیں کی تھی۔

افغانستان کے سینیئر صحافی بلال سروری نے ایکس پر لکھا: ’بتایا جا رہا ہے کہ کابل میں بمباری سے ٹی ٹی پی کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘

بلال سروری کے مطابق یہ بمباری ایسے وقت میں کی گئی ہے جب افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ مولانا امیر خان متقی انڈیا کے دورے پر ہیں۔

جمعرات اور جمعے کی درمیانے رات 12 بجے کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک غیر مصدقہ آڈیو پیغام بھی گردش کر رہا ہے، جس میں ایک شخص یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ (مبینہ طور پر) مفتی نور ولی محسود ہیں اور آج 9 اکتوبر کو وہ زندہ ہیں، پاکستان کے قبائلی اضلاع میں موجود ہیں اور ان کے مارے جانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود سے منسوب سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہوئے آڈیو پیغام ٹی ٹی پی کے آفیشل ٹیلی گرام چینل سے جاری نہیں کیا گیا ہے بلکہ افغانستان کے مقامی میڈیا کی جانب سے مختلف سماجی رابطوں کے ویب سائٹ سے جاری کیا گیا۔

آڈیو پیغام کی تصدیق ٹی ٹی پی کی جانب سے بھی ابھی تک نہیں ہوئی ہے اور نہ مفتی نور ولی محسود کے بارے میں ٹی ٹی پی نے کوئی بیان جاری کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے دھماکوں کی آوازیں سننے اور ڈرون دیکھنے کی اطلاعات بھی دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اے ایف پی کے ایک صحافی نے دیکھا کہ دارالحکومت کی گلیوں میں متعدد سکیورٹی فورسز الرٹ تھیں اور کاروں کی تلاشی لی جا رہی تھی۔ ۔ کئی محلوں میں موبائل فون سروس بھی بند رہی۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا کہ پہلا دھماکا عبدالحق سکوائر کے علاقے میں کئی وزارتوں اور قومی انٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر کے قریب ہوا، جبکہ کابل کے رہائشیوں نے شہر کے شہر نو محلے میں ایک اور دھماکے کی آواز بھی سنی، جس کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔

امریکہ کی افغانستان میں سابق سفیر زلمی خلیل زاد نے بھی اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جاری ایک پیغام میں سوالیہ انداز میں بتایا ہے کہ کیا پاکستان نے کابل میں بمباری کی ہے جس میں کہا جا رہا ہے ٹی ٹی پی کے مفتی نور نور علی کو مبینہ طور پر مار دیا ہے۔

پیغام میں مزید لکھا گیا ہے کہ ابتدائی معلومات شاید غلط ہوں لیکن جنگ کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ 

مفتی نور ولی کی دھماکے میں موت کی ابھی تک کابل یا پاکستان حکومت ٹی ٹی پی نے تصدیق نہیں کی ہے اور آزاد ذرائع سے بھی ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

ٹی ٹی پی کے اہم لیڈر کا جان سے مارا جانا اور کابل پر فضائی حملوں سے متعلق افواہیں حال ہی میں پاکستان میں پے در پے پونے والے سکیورٹی فورسز پر حملوں کے تناظر میں پھیلنے کا امکان ہے۔

بدھ کو پاکستان کے قبائلی ضلع اورکزئی میں عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے دو افسران سمیت 11 فوجی اہلکار جان سے گئے، جبکہ جمعرات کو جعفر ایکسپریس پر کچھ ہی عرصے میں تیسرا حملہ ہوا۔

گذشتہ کچھ سالوں سے پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی آئی ہے، جو اسلام آباد کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ عسکریت پسند تنظیموں (بی ایل اے وغیرہ) کے کام ہیں، جبکہ مذکورہ تنظیمیں کئی واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کر چکی ہیں۔

پاکستان الزام لگاتا ہے کہ ان تنظیموں کے رہنما افغانستان میں موجود ہیں اور اس سلسلے میں کابل سے ان عسکریت پسند گروہوں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں کا مطالبہ بھی کیا جا چکا ہے۔

تاہم کابل میں افغان طالبان انتظامیہ اسلام آباد کی جانب سے ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔    

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا