پاکستان کا ’ماسکو فارمیٹ‘ میں ’محفوظ افغانستان‘ کے عزم کا اعادہ

محمد صادق کا کہنا ہے کہ ’میں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور افغان سرزمین سے کام کرنے والے تمام دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے کے لیے مشترکہ علاقائی کوششیں ناگزیر ہیں۔

پاکستان کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے 07 اکتوبر 2025 کو ماسکو فارمیٹ اجلاس میں شرکت کی (تصویر: محمد صادق)

پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق نے منگل کو ماسکو فارمیٹ کے ساتویں اجلاس میں اپنے ملک کی جانب سے امن، استحکام اور محفوظ افغانستان کے لیے غیر متزلزل وابستگی کا اعادہ کیا۔

افغانستان پر ماسکو فارمیٹ مشاورتی اجلاس کے حوالے سے محمد صادق نے ایکس پر بیان جاری کیا۔

اجلاس میں افغانستان، روس، انڈیا، ایران، قازقستان، کرغیزستان، چین، پاکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے حکام شرکت کر رہے ہیں، تاکہ افغانستان سے متعلق اہم علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

اپنے بیان میں محمد صادق کا کہنا ہے کہ ’میں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور افغان سرزمین سے کام کرنے والے تمام دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے کے لیے مشترکہ علاقائی کوششیں ناگزیر ہیں۔

’میں نے سیاسی و معاشی تعاون کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف اور منشیات کے انسداد میں علاقائی تعاون کو بڑھانے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔‘

محمد صادق نے مزید بتایا کہ ’اجلاس میں ان چیلنجز سے نمٹنے اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مسلسل مکالمہ، تعاون اور مربوط اقدامات کو ناگزیر قرار دیا گیا۔‘

دوسری جانب باختر نیوز ایجنسی کے مطابق ماسکو فارمیٹ مشاورتی اجلاس کے ساتویں دور میں منگل افغانستان کے وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی نے باضابطہ طور پر شرکت کی۔

افغانستان کے وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی نے اجلاس میں اپنے خطاب کے آغاز میں روسی حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پہلی بار افغانستان کو ماسکو فارمیٹ کے رکن کے طور پر مدعو کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ماسکو فارمیٹ کا پچھلا اجلاس چار اکتوبر 2024 کو ہوا تھا اور اس دوران خطے اور دنیا میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔‘

افغانستان کے وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ اس دوران ’خوش قسمتی سے افغانستان اور خطے کے درمیان تعلقات مضبوط ہوئے ہیں اور استحکام کی طرف گامزن ہیں۔ یہ امر اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ عالمی برادری میں افغانستان کے بارے میں فہم، اعتماد اور خیر خواہی میں اضافہ ہوا ہے۔‘

امیر خان متقی نے کہا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام کے وقت افغانستان کو جن سکیورٹی چیلنجز کا سامنا تھا، ان میں داعش، منشیات کی سمگلنگ کے نیٹ ورکس، اسلحہ کی غیر قانونی تجارت اور دیگر مسائل شامل تھے، جنہوں نے افغانستان کو خطے اور دنیا سے الگ تھلگ کر دیا تھا۔

’آج الحمد اللہ یہ چیلنجز بڑی حد تک قابو میں آچکے ہیں۔ افغانستان اب خطرے کا نہیں بلکہ خطے کے استحکام اور معاشی ترقی کا ضامن اور شریک کار بن چکا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ ’حال ہی میں کچھ ممالک کے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان میں مختلف گروہوں کی موجودگی پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کی سرزمین پر کوئی ایسا گروہ موجود نہیں جو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہو رہا ہو۔

’ہم ان ممالک کے حکام سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے داخلی مسائل کی ذمہ داری خود قبول کریں۔‘

اس سے قبل افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے حکام نے بتایا کہ قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی جنگ زدہ ملک سے متعلق ’ماسکو فارمیٹ‘ کے ساتویں اجلاس میں شرکت کے لیے پیر کو روسی دارالحکومت ماسکو پہنچے ہیں۔

طالبان حکام کے مطابق امیر خان متقی روسی فیڈریشن کی سرکاری دعوت پر روس پہنچے۔

یہ سفر افغان وزیر خارجہ کو انڈیا کے لیے آئندہ ہفتے دورے کی اجازت ملنے کے بعد پہلا دورہ ہے۔ امیر خان متقی اقوام متحدہ کی اسی قدغن کی وجہ سے پاکستان کا دورہ نہیں کر سکے تھے۔

حقوق انسانی کی نگرانی کی منظوری

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نےافغانستان میں ماضی اور جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد احتساب کے طریقہ کار کی منظوری دے دی۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ایک آزاد طریقہ کار کے قیام کے لیے ایک قرارداد منظور کی ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے پیر 6 اکتوبر کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ قرارداد یورپی ممالک نے پیش کی تھی۔ یونین اور مختلف خطوں اور سیاسی بلاکوں کے ممالک کے وسیع اتحاد کی حمایت حاصل ہے۔

یہ کو بغیر کسی ووٹ کے منظور کیا گیا اور اسے کوئی اعتراض کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جو عالمی اتحاد کے ایک نادر مظاہرے کی عکاسی کرتا ہے۔

قرارداد میں طالبان اور دیگر سنگین زیادتیوں کے مرتکب افراد کو واضح طور پر متنبہ کیا گیا ہے کہ مستقبل میں قانونی چارہ جوئی کے لیے اس کے ذریعے منظم طریقے سے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور انہیں دستاویزی شکل دی جا رہی ہے۔

اس میں افغانستان میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کے مینڈیٹ میں بھی توسیع کی گئی ہے، جس سے انہیں تشدد، صوابدیدی حراست اور صنفی بنیاد پر ظلم و ستم جیسی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے کا اختیار دیا گیا ہے

یہ پہلا موقع ہے جب طالبان کے وزیر خارجہ 2016 میں قائم ہونے والے ماسکو فارمیٹ میں ایک سرکاری رکن کے طور پر شرکت کر رہے ہیں۔

طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان حافظ ضیا احمد تکل نے ایک بیان میں بتایا کہ ’یہ دورہ ماسکو فارمیٹ کے رکن ممالک کے ساتھ جاری سفارتی رابطے اور علاقائی تعاون کا حصہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں علاقائی سلامتی، انسداد دہشت گردی، اقتصادی تعاون اور افغانستان کو متاثر کرنے والے انسانی مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

تکل نے کہا کہ ’یہ پہلا موقع ہے جب طالبان کے وزیر خارجہ ماسکو فارمیٹ کے ایک باضابطہ رکن کے طور پر شرکت کر رہے ہیں، جو 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد گروپ کی بڑھتی ہوئی علاقائی مصروفیت کی علامت ہے۔‘

امیر خان متقی کی شرکت اس وقت سامنے آئی ہے جب پڑوسی ممالک بڑھتے ہوئے سکیورٹی اور اقتصادی خدشات کے درمیان افغانستان کے لیے ایک مربوط علاقائی حکمت عملی پر زور دے رہے ہیں۔

اکتوبر 2024 میں ہونے والے ماسکو فارمیٹ مشاورت کے گذشتہ دور میں افغان طالبان پر افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائیوں اور خواتین اور نسلی اقلیتوں سمیت تمام افغانوں کے حقوق کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں طالبان کی موجودگی علاقائی سفارت کاری کے ذریعے بین الاقوامی قانونی حیثیت حاصل کرنے کی اس کی جاری کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماسکو اور دیگر علاقائی دارالحکومتیں طالبان حکام کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خواتین پر پابندیوں اور دہشت گردی کے خدشات وسیع پیمانے پر قبولیت کو محدود کرتے رہتے ہیں۔

خیال ہے کہ یہ اجلاس بند دروازوں کے پیچھے ہو گا۔

ماسکو فارمیٹ افغانستان کے بارے میں ایک علاقائی اجلاس کی شکل ہے، جس کا چھٹا اجلاس گذشتہ سال منعقد ہوا تھا۔

اس فارمیٹ کا آغاز دسمبر 2016 میں کیا گیا تھا اور حال ہی میں اس نے اپنی رکنیت کو بتدریج بڑھا کر گیارہ کر دیا ہے، جو کچھ کے خیال میں افغانستان میں امن اور مفاہمت پر علاقائی ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اتفاق رائے کی عکاسی کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا