طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی تہران میں کیا تلاش کر رہے تھے؟

طالبان نے تہران میں اسماعیل خان کی قیادت میں ایک گروپ سے ملاقات کی جس میں احمد مسعود موجود نہیں تھے۔

قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی اور ایران کے صدر کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان حسن کاظمی قمی کے درمیان دو طرفہ ملاقات  (تصویر: ٹوئٹر، حافظ ضیا احمد-ترجمان وزارت خارجہ افغانستان)

طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کی تہران میں متعدد اہم شخصیات سے ملاقاتیں، متضاد بیانات کے ساتھ ہوئی ہیں۔ طالبان کے قریبی ذرائع نے لکھا ہے کہ قومی مزاحمتی محاذ کے رہنما احمد مسعود بھی ہفتہ اور اتوار کو سیاسی اور جہادی شخصیات کے ہمراہ امیر خان متقی کے ساتھ ملاقاتوں میں موجود تھے۔

امیر خان متقی نے 26 رکنی سیاسی اور اقتصادی وفد کی قیادت میں تہران کا دورہ کیا ہے۔ یہ سفر آٹھ جنوری کو شروع ہوا تھا، جس کے دوران ایک آڈیو فائل میں متقی کے مطابق ایرانی حکام کے ساتھ تجارت، معیشت، سکیورٹی اور ٹرانزٹ کے شعبوں میں بات چیت ’مثبت‘ رہی۔

ادھر بی بی سی کا طالبان کے حوالے سے کہنا ہے کہ ایران جانے والے ان کے وفد نے سابق جہادی کمانڈر اسماعیل خان اور قومی مزاحمتی محاذ کے رہنما احمد مسعود سے ملاقات کی۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ان کے وفد نے دورے کے دوران انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ ملک واپس آسکتے ہیں۔

طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بعد ازاں کابل واپسی کے بعد کابل ایئرپورٹ پر صحافیوں سے ملاقات کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہاں، ہم نے کمانڈر اسماعیل خان اور احمد مسعود سے ملاقات کی ہے، ہم نے دوسرے افغانوں سے ملاقات کی ہے، ہم نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ افغانستان میں آکر محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یہ ان کا گھر ہے، ہم کسی کے لیے پریشانی پیدا نہیں کرتے۔‘ خیال ہے کہ یہ دورہ ایرانی حکام کی کوششوں سے ہوا۔

پنجشیر کے صوبائی دارالحکومت پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے نام نہاد قومی مزاحمتی محاذ کے رہنماؤں کے ساتھ آمنے سامنے بات چیت کی ہے، جو زیادہ تر پنجشیر میں مقیم تھے۔

تاہم، ایرانی سرکاری خبررساں ادارے ارنا کے مطابق اس سفر کے موقع پر بعض ذرائع ابلاغ تہران میں افغان سفارت خانے کو طالبان کے حوالے کرنے کے امکان پر قیاس آرائیاں کرنے لگے۔

ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان ’سعید خطیب زادہ نے تاہم اس حوالے سے کہا کہ تہران میں افغان سفارت خانے کی سفارتی سرگرمیاں، تمام غیر ملکی سفارت خانوں کی طرح 1961 کے ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات کے ذریعے بیان کردہ اصولوں اور ضوابط کے دائرے میں ہیں اور اس سے باہر کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق طالبان کے وفد نے ہرات کے سابق گورنر محمد اسماعیل خان کی قیادت میں ایک گروپ سے ملاقات کی۔ احمد مسعود اجلاس میں موجود نہیں تھے، جس میں انتخابات کے انعقاد اور جامع حکومت کی تشکیل پر بات چیت کی گئی۔ یہ ملاقات طالبان کی درخواست پر ہوئی تھی۔

معروف ایرانی صحافی اور مزاحمتی محاذ کی قریبی شخصیت جیلا بنی یغوب نے بھی ٹویٹر پر لکھا کہ افواہوں کے برعکس احمد مسعود نے اب تک ایران میں طالبان کے ساتھ کسی بھی مذاکرات میں حصہ نہیں لیا ہے۔

قومی مزاحمتی محاذ کے ترجمان صبغت اللہ احمدی نے اتوار کو ٹویٹ کیا کہ احمد مسعود اور متقی کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ صبغت اللہ احمدی نے بعد میں یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا۔ تاہم، بہت سی دوسری سیاسی اور جہادی شخصیات نے امیر خان متقی سے ملاقات کی ہے۔

حافظ منصور نے، جو خود ان ملاقاتوں میں شریک تھے، فیس بک پر لکھا کہ اسماعیل خان کی قیادت میں قومی مزاحمتی محاذ کے ایک وفد نے تہران میں طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کی ہے۔ مسٹر منصور کی پوسٹ اتوار کی رات 11 بجے کے قریب لکھی گئی تھی اور لگتا ہے کہ متقی سے ملاقات کے بعد جاری ہوئی ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ان کی سرکاری ملاقاتوں کے علاوہ جہادی شخصیات بالخصوص قومی مزاحمتی محاذ کے ارکان سے ملاقات کا مقصد کیا ہے؟

امیر خان متقی جو، طالبان کی ایک بااثر شخصیت، اس سے قبل جہادی شخصیات سے منسلک تھے۔ جس دن ہرات کا سقوط ہوا اور اسماعیل خان طالبان کے قبضے میں چلے گئے، تو امیر خان متقی نے اسماعیل خان کو ٹیلی فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ طالبان کا اتحاد کا پیغام دیگر جہادی شخصیات جیسے صلاح الدین ربانی، احمد مسعود، قانونی اور جمعیت اسلامی کے دیگر اراکین تک پہنچائیں۔

اس پیغام کا مطلب یہ ہے کہ طالبان اقتدار میں حکومت کے علاوہ صرف جماعت اسلامی کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں۔ اب بھی طالبان کے بقول یہ اسلامی جمعیت ہی ہے جو اب بھی طالبان کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ اب طالبان رہنما جمعیت کے کچھ حصے کو اپنے ساتھ لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ آبادی کو اس گروپ کے ساتھ متحد کرنے کے ان کے لیے دو اہم فائدے ہیں: پہلا، وہ اپنی مضبوط ترین مخالفت کو ایک طرف رکھتے ہیں اور اپنی مسلح مخالفت کو روکتے ہیں۔ دوسرا، وہ نرم طاقت کا استعمال کر رہے ہیں جو زیادہ تر تاجکوں کے ہاتھ میں ہے۔

طالبان نے محسوس کیا ہے کہ عوامی میڈیا اور سائبر سپیس کا ایک بڑا حصہ تاجکوں کے کنٹرول میں ہے اور وہ سوشل میڈیا پر متحرک ہو رہے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو ماضی میں پچھلی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے تھے کم از کم طالبان کے خلاف مضبوط گڑھ میں شامل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا طالبان کی حکومت کی وسعت کو ظاہر کرنے کے لیے، مزاحمتی محاذ سے تعلق رکھنے والے افراد کا اقتدار میں رہنا کتنا بہتر ہوگا۔

طالبان اسماعیل خان کے بھتیجے عبدالقیوم سلیمانی کی تحویل کی تصدیق کرنے والے خط کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ گذشتہ دو سال سے تہران میں افغان سفیر کے مشیر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیلا بنی یعقوب نے ٹویٹر پر لکھا کہ متقی کی اسماعیل خان سے ملاقات جو تہران میں افغان سفارت خانے کے سربراہ کی رہائش پر ہوئی۔

مزاحمتی محاذ کی امیر خان متقی سے ملاقات سے اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات تقریباً بے نتیجہ رہے۔ طالبان نے مذاکرات میں اپنا موقف بیان کیا ہے، اور مزاحمتی محاذ نے ایک جامع حکومت، سماجی انصاف، شہری حقوق اور لوگوں کے ساتھ مناسب رویے کے پرانے ​​مطالبات پر زور دیا ہے۔

ایران کیوں؟

ارنا کے مطابق یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ کون سے عوامل اور وجوہات ہیں جن بنا پر طالبان نے پاکستان اور قطر کے بعد اپنے تیسرے سفارتی دورے کے لیے تہران کا انتخاب کیا؟

سرکاری بیان کے مطابق ایران سخت دنوں میں افغان عوام کے ساتھ کھڑا رہنا قرار دیا ہے۔ اس رپورٹ کے بقول ایران نے افغان تارکین وطن کو قبول کرنے میں اس کا نمایاں حصہ رہا ہے اور 30 لاکھ سے زیادہ افغان ایران میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایران نے حالیہ دونوں میں انسانی امداد کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے غریبوں کے لیے اشیائے خورد و نوش کی ایک کھیپ بھیجی جس کی مالیت کی 50 ہزار ڈالر سے زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ اس عرصے میں ایران نے سفارت کاری کے ذریعے افغانستان کو بحران سے نکالنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں سربراہی اجلاس کے انعقاد میں تہران کا فعال کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

رپورٹ کے مطابق ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے حالیہ پریس کانفرنس کے دوران طالبان وفد کے دورہ تہران کا معاملہ بھی اٹھایا گیا اور ترجمان سعید خطیب زادہ نے ایرانی حکام اور طالبان کے وفد کے ساتھ  ملاقات سے متعلق کہا کہ ایران کی ساری فکر یہ رہی ہے کہ افغان عوام کے حالات کو کیسے بہتر کیا جائے اور اس صورت حال سے کیسے نکلا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سفر کے دوران بہت اچھی بات چیت ہوئی اور عوام پر مرکوز معیشت پر توجہ دے کر معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کے قریب لانے کی کوشش کی گئی۔ اس سفر میں تین مختلف ورکنگ گروپس میں تمام مسائل کا جائزہ کیا گیا اور انہوں نے اسے ایک کامیاب سفر قرار دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا