پاکستان میں سائیڈ ہسل ایک خاموش انقلاب کی طرح پھیلا ہے۔ کلاس ختم ہو تو کوئی طالب علم انسٹاگرام پر چھوٹا سا برانڈ چلا رہا ہوتا ہے، شام ڈھلے کوئی جونیئر ڈیولپر ایپ ورک پر کلائنٹ کے لیے فیچر لکھ رہا ہوتا ہے، وِیک اینڈ پر کوئی کوئی نئی ایپ بنانے کے لیے کوڈنگ کر رہا ہوتا ہے۔
اس رجحان کے پیچھے سیدھی سی بات ہے: نوجوان آبادی بہت بڑی ہے، موبائل اور سوشل پلیٹ فارمز سب کی جیب میں ہیں اور ڈیجیٹل معیشت نے کم سرمائے سے کمائی کے کئی دروازے کھول دیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کی بڑی اکثریت شامل ہے، اندازاً دو تہائی لوگ تیس سال سے کم عمر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئے ہنر سیکھنے اور چھوٹے دھندوں کو آزمانے کی رفتار تیز نظر آتی ہے۔
اس نوجوان لہر کی ایک بڑی بنیاد فری لانسنگ ہے۔ عالمی ادائیگی پلیٹ فارم Payoneer کے مطابق پاکستان فری لانسنگ کی دنیا میں نمایاں ہے۔ سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور ٹیکنالوجی کی کیٹیگری میں ملک کی عالمی درجہ بندی ٹاپ فائیو میں آتی ہے۔ 2021–22 میں صرف فری لانس برآمدی آمدن تقریباً 396 ملین ڈالر رپورٹ ہوئی۔ یہ صرف آئی ٹی نہیں، مواد نویسی، ترجمہ، ورچوئل اسسٹنس اور کسٹمر سروس جیسی نان آئی ٹی سروسز کی طلب بھی تیزی سے بڑھی ہے۔
ملک کے اندر ٹیلنٹ کی تربیت پر بھی کام ہوا ہے، اسی لیے یہ لہر شہر شہر نظر آتی ہے۔ حکومت کے ڈیجی سکلز پروگرام نے اب تک ساڑھے چار ملین سے زیادہ تربیتیں فراہم کی ہیں، جن میں نوجوانوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔ پنجاب کا ای روزگار پروگرام ایک لاکھ سے زائد گریجویٹس تیار کرنے اور کمائی میں کردار ادا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ بات بہت سادہ ہے، اگر آپ کے پاس لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ ہے تو رکاوٹ کم ہو چکی ہے، اور یہی وہ نکتہ ہے جس نے طالب علموں اور نوکری پیشہ نوجوانوں کو سائیڈ ہسل کی طرف کھینچا۔
اصل میں یہ سب صرف اعداد نہیں۔ مثالیں حاضر ہیں۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے ایک طالب علم اشرف کی کہانی اسی رجحان کی تصویر ہے۔ انہوں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ آن لائن گیم لائسنسز کے عالمی نرخ دیکھے، فرق سے فائدہ اٹھایا، اور مقامی مارکیٹ کے لیے ری سیلنگ کا ماڈل کھڑا کر دیا۔ یہ آئیڈیا کالج روم کے نوٹس سے نکل کر حقیقی کمائی تک پہنچا۔
آئن لائن فروخت بھی طالب علموں اور فرسٹ جاب پروفیشنلز کے لیے ایک ترجیحی راستہ ہے۔ دراز نے لاکھوں صارفین اور بڑے سیل ایونٹس کے ذریعے چھوٹے بیچنے والوں کو خریدار کے سامنے لا کھڑا کیا۔ گروپ لیول پر کمپنی نے 2024 میں دو لاکھ فعال سیلرز کا حوالہ دیا، اور پاکستان اس کے سب سے بڑے بازاروں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی ایکو سسٹم کو سپورٹ کرنے کے لیے دراز یونیورسٹی جیسے وسائل نئے بیچنے والوں کو تصویروں، لسٹنگ اور پروموشن چلانے کی تربیت دیتے ہیں۔ یونیورسٹی کا کام یہی ہے کہ ایک طالب علم بھی شام کو کلاس کے بعد اپنی مائیکرو دکان چلا سکے۔
سوشل پلیٹ فارمز پر کریئیٹر اکانومی نے بھی سائیڈ ہسل کو ہوا دی ہے۔ 2025 کے آغاز میں ٹک ٹاک کے اشتہاری ٹولز کے مطابق پاکستان میں 18 سال سے اوپر کے 6 کروڑ 69 لاکھ صارفین تک رسائی ممکن تھی۔ اسی طرح یوٹیوب کے اپنے ڈیٹا کے مطابق ملک میں یوٹیوب اشتہارات کی رسائی انٹرنیٹ یوزرز کے تقریباً نصف کے برابر تھی۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ویڈیو بنانا، برانڈ کولیبریشن کرنا یا مقامی زبان میں تعلیمی چینل چلانا اب محض شوق نہیں رہا، بہت سے نوجوانوں کے لیے آمدن کا باقاعدہ ذریعہ بن چکا ہے۔
آئی ٹی اور آئی ٹی مُعاون خدمات کی برآمدات نے بھی اس فضا کو سہارہ دیا۔ مالی سال 2024–25 میں آئی ٹی برآمدات 3.8 ارب ڈالر کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچیں۔ جب ملک میں ڈجیٹل سروسز کی عالمی مانگ بڑھتی ہے تو فری لانس پروجیکٹس، کنٹریکٹ رولز اور ریموٹ جابز کے دروازے کھلتے ہیں، اور وہی طلب طالب علموں اور ینگ پروفیشنلز کو رات کے اوقات یا وِیک اینڈ پر اضافی کام اٹھانے کا حوصلہ دیتی ہے۔
لیکن یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ اس میں بہت سی رکاوٹیں بھی ہیں۔ کنیکٹیوٹی اور پالیسی کی رکاوٹیں۔ انٹرنیٹ فائر وال اور بندشوں کی خبروں کے دوران کاروبار کی رفتار میں کمی، ڈیڈ لائنز مس ہونے اور کلائنٹس کے اعتماد پر اثرات کا رونا رویا گیا۔ انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور ممکنہ فلٹرنگ سے وابستہ معاشی نقصان کے اندازے سینکڑوں ملین ڈالر تک بتائے گئے۔ ایسی رکاوٹیں فری لانسرز اور آن لائن سیلرز کے لیے خاص طور پر مشکل ہوتے ہیں کیونکہ اُن کی ساکھ بروقت ڈیلیوری پر کھڑی ہوتی ہے۔
پاکستانی نوجوانوں کے لیے سائڈ ہسل کوئی فیشن یا وقتی رجحان نہیں بلکہ ایک ضرورت بن چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اخراجات نے انہیں مجبور کیا کہ پڑھائی یا نوکری کے ساتھ ساتھ کوئی دوسرا ذریعہ آمدن نکالیں۔ کرایہ، فیسیں، اور روزمرہ اخراجات صرف ایک ذریعہ آمدن سے پورے نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ ملک میں اچھی تنخواہ والی نوکریاں کم ہیں اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے وہ آن لائن فری لانسنگ، چھوٹے کاروبار یا گیگ اکانومی میں شامل ہوتے ہیں تاکہ اپنی صلاحیت بیچ سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ انٹرنیٹ، موبائل ایپس اور سوشل میڈیا نے کم سرمائے سے کاروبار یا فری لانسنگ ممکن بنا دی ہے۔ اب ایک انسٹاگرام پیج یا فائیور پروفائل کھولنا آسان ہے اور کمائی ممکن ہے۔ آج کی نوجوان نسل خاص طور پر نوجوان لڑکیاں خود مختار ہونا چاہتی ہیں۔ وہ صرف پیسوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے شوق، ہنر یا کاروباری خواب کے لیے سائڈ ہسل کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ تجربہ مستقبل کے بڑے کاروبار کی پہلی سیڑھی ہے۔
ای کامرس، کنٹینٹ اور سروسز کے اس پورے منظرنامے میں طالب علموں اور ینگ پروفیشنلز کے لیے ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ کیا سائیڈ ہسل پڑھائی یا نوکری پر اثر انداز ہوتا ہے؟ جواب سب کے لیے ایک سا نہیں، مگر بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلا جا سکتا ہے۔
مثلاً جو طالب علم گرافک ڈیزائن پڑھ رہا ہے، وہ فری لانس گگ میں کلائنٹ بریف، ریویژن سائیکلز اور برانڈنگ کی حقیقت سیکھتا ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو کلاس میں صرف تھیوری بن کر رہ جاتا۔ یا جو جونیئر ڈیولپر دفتر میں بیک اینڈ دیکھتا ہے، وہ سائیڈ ہسل کے ذریعے پورا ’اینڈ ٹو اینڈ‘ پروڈکٹ سوچنا سیکھ لیتا ہے، کیونکہ وہاں وہی شخص سیلز بھی ہے، سپورٹ بھی اور ڈیولیوری بھی۔
آخر میں بات پھر وہیں آتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ پاکستان کے طالب علم اور ینگ پروفیشنلز اپنی پڑھائی اور نوکری کے بیچ چھوٹے چھوٹے کاروبار چلا کر نہ صرف اپنا خرچ اٹھا رہے ہیں بلکہ ہنر اور اعتماد بھی جمع کر رہے ہیں۔ کسی کے لیے یہ کرائے کی آدھی قسط ہے، کسی کے لیے والدین پر بوجھ کم کرنے کا ذریعہ اور کسی کے لیے بڑے خواب کی پہلی اینٹ۔
اگر حکومت اور ادارے اس رجحان کو سپورٹ کریں جیسے کہ یونیورسٹیوں میں کو ورکنگ کورنر، فوٹو سٹوڈیوز، مائیکرو لونز اور ٹیم پروجیکٹس مہیا کرے تو یہی سائیڈ ہسلز کل کے ایس ایم ایز اور سٹارٹ اپس بن سکتے ہیں۔ چھوٹا شروع کریں، مستقل رہیں اور اس ملک کی نئی نسل کے لیے یہی فارمولا سب سے زیادہ کارآمد دکھتا ہے اور ہے بھی۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔