فری لانسرز کو پاکستان میں کن مسائل کا سامنا ہے؟

پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ فری لانسرز کام کر رہے ہیں، جو سالانہ تقریباً چار سو ملین ڈالرز سے زیادہ زرمبادلہ ملک میں لاتے ہیں۔

19  نومبر 2015 کی اس تصویر میں پاکستان کے شہر کراچی میں ایک آن لائن کمپنی کے دفتر میں کام کرتے افراد کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

عمر صفدر ایک فری لانسر ہیں۔ وہ تین سال سے یوٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک سے لاکھوں ڈالرز کما چکے ہیں۔ انھوں نے فری لانسنگ میں کامیابی اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کی ہے۔

تاہم وہ پاکستان کے موجودہ حالات سے مایوس ہیں اور مستقل طور پر دبئی منتقل ہونے کے خواہش مند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک اور ایف بی آر مسلسل رکاوٹیں پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

بینکس فری لانسر کا اکاؤنٹ کھولنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور ایف بی آر ٹیکس کاٹنے کے بعد بھی نوٹسز بھیج کر پریشان کرتا ہے۔

’اب میں کانٹینٹ پر کام کروں یا ایف بی آر اور بینکوں کے چکر لگاتا رہوں۔ دبئی میں نہ کوئی نوٹس آتا ہے اور بینکس آن لائن آسانی سے اکاؤنٹ کھول دیتے ہیں، ڈالر کے اتار چڑھاؤ کا بھی مسئلہ نہیں ہے اور ادائیگی بھی آسانی سے ہو جاتی ہے۔ اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی پاکستان میں مونیٹائزیشن بھی نہیں ہے۔

’آئی ٹی کے وزیر آئی ٹی اور فری لانسنگ ایکسپورٹ 2.67 ارب ڈالر سے 10 ارب ڈالرز تک لے جانے کی بات کرتے ہیں لیکن اگر حالات یونہی رہے تو مجھ سمیت کئی فری لانسر ملک چھوڑ دیں گے۔ جس سے ایکسپورٹس بڑھنے کی بجائے کم ہو جائیں گی۔‘

پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن کے صدر اور چیف ایگزیکٹیو طفیل احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ فری لانسرز کام کر رہے ہیں، جو سالانہ تقریباً چار سو ملین ڈالرز سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان لاتے ہیں۔ لیکن یہ اعداد و شمار حتمی نہیں ہیں۔ اس کے لیے ریسرچ کی ضرورت ہے اور پاکستان میں کوئی ادارہ ریسرچ کے لیے فنڈز دینے کو تیار نہیں۔

’ہم نے ایشین ڈیویلپمنٹ بینک سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان میں فری لانسرز کی اصل تعداد معلوم کرنے کے لیے ریسرچ کروائیں۔ امید ہے کہ جلد ہم حقیقی تعداد معلوم کر پائیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان فری لانسنگ میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے لیکن یہ سب اپنی مدد آپ کے تحت ہے۔ ہم نے یونیورسٹیوں میں فری لانسنگ کے لیکچرز دیے تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اکثر طلبہ یہ جانتے ہی نہیں کہ فری لانسنگ کیا ہے۔

’حکومت نے ڈی جی سکلز پلیٹ فارم سے فری لانسرز کو ٹریننگ ضرور دی ہے لیکن ان میں سے کتنے بچے ڈالرز کمانے کے قابل ہوئے اس بارے میں کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔‘

راحیل یٰسین سوشل میڈیا منیجمنٹ کمپنیوں کے مالک ہیں۔ ان کے پاس 500 سے زیادہ یوٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک اور انسٹا گرام چینلز ہیں اور وہ پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو تکنیکی طور پر مینیج کرنے والے ابتدائی لوگوں میں شامل ہیں۔

انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’فیس بک ڈالرز کمانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن پاکستان میں فیس بک مونیٹائزیشن نہیں ہو سکتی۔

’ہمیں مجبورا دبئی، یو کے، امریکہ اور یورپ میں اکاؤنٹس کھلوانا پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹک ٹاک بھی پاکستان میں مونیٹائز نہیں ہے۔ اگر کسی ذریعے سے ڈالرز پاکستان لے آئیں تو یہاں سے ڈالرز میں بیرون ملک ادائیگی کرنے میں بھی بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

’فیس بک پر اشتہار چلانے کی ادائیگی کرنے کے لیے اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ اگر یہی ادائیگی میں بیرون ملک اپنے اکاونٹس سے کروں تو کوئی چارجز نہیں لگتے۔ ایسی صورت حال میں میں پاکستان ڈالرز لا کر خود کو مصیبت میں کیوں ڈالوں۔

’حکومت کو ان مسائل کو سمجھنا چاہیے اور جو فری لانسرز ڈالر پاکستان لا رہے ہیں انھیں کم از کم اتنے ہی ڈالرز بیرون ملک بھجوانے کی اجازت ہونا چاہیے۔ سرکار نے 50 فیصد ڈالرز رکھنے کی اجازت دی ہے جو ناکافی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اکثر فری لانسرز ’چھ لاکھ روپے میں دبئی کا دو سال کا ویزا لیتے ہیں۔ دبئی میں بینک اکاونٹس کھلواتے ہیں۔ فری لانسنگ کی آمدن ان اکاؤنٹس میں منگواتے ہیں۔ انہی اکاؤنٹس سے کرپٹو کرنسی پلیٹ فارم جیسا کہ Binance سے ڈالرز خریدتے ہیں اور پھر وہیں پر ڈالرز بیچ کر پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں کیش منگوانے پر مجبور ہیں۔

’اس کے علاوہ ایف بی آر فری لانسرز سے ایک فیصد ٹیکس وصول کر رہی ہے جو بہت زیادہ ہے۔ ٹیکس اور دیگر پوچھ گچھ کی وجہ سے اکثر فری لانسرز اپنے رشتہ داروں کے اکاؤنٹس میں فیملی ریمیٹنس منگواتےہیں۔‘

ہشام سرور پاکستان کے پہلے فری لانسر ہیں اور اس وقت پاکستانی میڈیا میں فری لانسنگ کی سب سے زیادہ مقبول اور باثر شخصیت ہیں۔

انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں فری لانسرز کی تعداد بڑھ رہی ہے اور حکومت مزید دو لاکھ آئی ٹی ماہر بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی تعداد میں ماہرین صاحب روزگار کیسے ہوں گے؟

’وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ وہ مزید دس ہزار فری لانسرز مراکز قائم کریں گے یہ مثبت قدم ہے لیکن یہ سب کب اور کیسے ہو گا اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستانی فری لانسرز کو فائیور، اپ ورک اور پیپلز پر آر کے علاوہ بھی فری لانسنگ میں تربیت دی جانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں تقریبا 70 ملین لوگ فری لانسنگ سے جڑے ہیں جن میں سے تقریبا 50 ملین ان پلیٹ فارمز کو استعمال نہیں کرتے بلکہ دیگر تکنیک کے ذریعے کاروبار بڑھا رہے ہیں۔

’پاکستان کو اپنا فری لانسنگ پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت فری لانسرز اور آئی ٹی ماہرین سے مشاورت کرے تا کہ قابل عمل اور دیر پا پالیسیز بنائی جا سکیں۔اس کے علاوہ فری لانسرز کی ہیلتھ انشورنس اور کلبز بنانا بھی ضروری ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں فری لانسرز کو انڈسٹری کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ فری لانسرز کو اگر کسی مسئلے کا سامنا ہے تو ان کے پاس کوئی حکومتی پلیٹ فارم ایسا نہیں جہاں جا کر وہ اپنے مسائل بتا سکیں۔ انھیں آئی ٹی میں شامل کر رکھا ہے جو کہ نامناسب ہے۔‘

پاکستان سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ ایسوسی ایشن ( پاشا) کے چیئرمین ذوہیب خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’فری لانسر ساری عمر فری لانسنگ نہیں کر سکتا۔ انھیں سٹارٹ اپس کی ضرورت ہے۔ یہ ڈالرز کمانے کا دیر پا اور مضبوط ذریعہ ہے۔

’بدقسمتی سے پاکستان میں سٹارٹ اپس کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ مالی معاملات ہیں۔ پچھلے چند ماہ میں نئے سٹارٹ اپس شروع ہونے کی بجائے بہت سے سٹارٹ اپس بند ہوئے ہیں۔ حکومت فری لانسرز کو سستے قرض دے کر سٹارٹ اپس میں اضافہ کر سکتی ہے۔

انھوں کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے سپیشل ٹیکنالوجی زون میں 100 فیصد ڈالرز ملک میں رکھنے اور باہر بھیجنے کی اجازت ہے۔ اگر سٹیٹ بینک رکاوٹیں ڈالنے کی بجائے سہولتیں فراہم کرے اور آئی ٹی انڈسٹری کو 10 سال کے لیے کھلا چھوڑ دیں تو دس پندرہ ارب ڈالرز پاکستان لانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ