منشیات، پاکستانی نوجوان اور خلیجی ترسیلاتِ زر

اگر خلیجی ممالک کو یہ تاثر ملا کہ منشیات پاکستان سے پہنچتی ہیں، تو مزدوروں کے لیے راستے تنگ ہو سکتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ ترسیلات بھی جن سے ہماری معیشت قائم ہے۔

اب منشیات فروشوں کے گروہ صرف گلیوں تک محدود نہیں، بلکہ ان کے سودے خفیہ ایپس، سوشل میڈیا اور فوڈ ڈیلیوری سروسز کے ذریعے ہوتے ہیں۔ یعنی یہ زہر اب روزمرہ شہری زندگیوں میں گھل چکا ہے (فائل/ اینواتو)

گذشتہ ماہ سندھ پولیس نے کراچی کے ایک 19 سالہ طالب علم کو گرفتار کیا جو اپنے ہم جماعتوں کو منشیات فروخت کر رہا تھا۔ اس کی اجرت چند سکے تھے، مگر اصل قیمت اس نوجوان کا مستقبل تھا۔

 ایک اور کیس میں ایک مزدور، جو ایک خلیجی ملک میں اپنی پہلی ملازمت کے لیے روانہ ہو رہا تھا، منشیات لے جانے کے لیے دھوکے سے استعمال کیا گیا۔ وہ غیر ملکی جیل جا پہنچا اور اس کے گھر والوں کے خواب بکھر گئے۔

ایسے واقعات میڈیا کی سرخیاں بنتے ہیں، لیکن اس تجارت کے اصل منصوبہ ساز بہت کم پکڑے جاتے ہیں۔ ہر گرفتاری یا برآمدگی کے باوجود منافع کمانے والے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ ایک خاموش وبا کی روزمرہ کہانی ہے۔

یہ الگ الگ واقعات نہیں بلکہ ایک بڑے بحران کی جھلک ہیں۔ پاکستان کے منشیات کے مسئلے کو صرف برآمدگی یا گرفتاریوں سے نہیں ناپا جا سکتا۔ یہ ان زندگیوں کا قصہ ہے جو تباہ ہو گئیں، ان خاندانوں کا جن کا سکون ٹوٹ گیا اور ان برادریوں کا جو اندر سے کھوکھلی ہو گئیں۔ ہماری کلاس رومز سے لے کر دبئی کے ایئرپورٹس تک، نشہ آور مواد تباہی کا راستہ بنا رہا ہے، جبکہ اس کے سرغنے عیش و عشرت میں ہیں۔

سندھ میں ہونے والا کریک ڈاؤن صرف خبروں تک محدود نہیں رہا۔ سکولوں اور کالجوں کے اطراف درجنوں مشتبہ افراد پکڑے گئے، اڈوں پر چھاپے مارے گئے اور گروہوں کو نگرانی میں رکھا گیا۔ پولیس نے چرس، ہیروئن اور مصنوعی منشیات برآمد کی ہیں۔ یہ منشیات کی ایسی لہر ہے جو جیب میں سما جاتی ہیں مگر ایک نسل کا مستقبل جلا کر راکھ کر دیتی ہیں۔

ان کارروائیوں کو منفرد بنانے والی چیز ہے ان گروہوں کا بدلتا ہوا طریقہ کار۔ اب یہ صرف گلیوں تک محدود نہیں، بلکہ ان کے سودے خفیہ ایپس، سوشل میڈیا اور فوڈ ڈیلیوری سروسز کے ذریعے ہوتے ہیں۔ یعنی یہ زہر اب روزمرہ شہری زندگیوں میں گھل چکا ہے۔

یہ مقامی منظرنامہ ایک عالمی رجحان کا عکس ہے۔ 2023 میں دنیا بھر میں 31.6 کروڑ افراد نے منشیات استعمال کیں، جو ایک دہائی میں 20 فیصد کا اضافہ ہے۔ اس سے خلیج بھی متاثر ہے۔

 2024 میں متحدہ عرب امارات میں 10 ہزار منشیات کے مقدمات درج ہوئے، جبکہ سعودی عرب میں ہزاروں افراد نشہ آور انجیکشن استعمال کر رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں جاری تنازعات نے مصنوعی منشیات جیسے کیپٹاگون کے پھیلاؤ کو بڑھایا ہے۔

نشہ چھڑوانے کے علاج کی علاقائی صنعت اب 82.4  کروڑ ڈالر کی ہو چکی ہے، جو بحران کی شدت ظاہر کرتی ہے۔

پاکستان خود ایک طوفان میں ہے۔ 76 لاکھ نشہ آور صارفین، جن میں 8.6 لاکھ ہیروئن کے عادی ہیں اور سالانہ تقریباً 1,200 اموات منشیات سے جڑی ہیں۔ ملک ایک طرف افغانستان کے سپلائی روٹس اور دوسری طرف خلیجی مزدوروں کے سفر کے بیچ پھنسا ہوا ہے۔ مسئلہ صرف نوجوانوں یا صحت کا نہیں بلکہ ترسیلات، ساکھ اور خطے کے استحکام کا ہے۔

نوجوانوں کے لیے نشہ تعلیم کا خاتمہ، صحت کی بربادی اور مواقع کی تباہی ہے۔ خاندانوں کے لیے یہ بدنامی، مالی بوجھ اور مایوسی ہے اور معاشرے کے لیے یہ جرم، منی لانڈرنگ اور انتہاپسندی کی مالی معاونت کا ذریعہ ہے۔

اگر خلیجی ممالک کو یہ تاثر ملا کہ منشیات پاکستان سے پہنچتی ہیں، تو مزدوروں کے لیے راستے تنگ ہو سکتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ ترسیلات بھی، جن سے ہماری معیشت قائم ہے۔

جغرافیہ پاکستان کے لیے دوہرا خطرہ ہے۔ افغانستان میں منشیات کی ریکارڈ سطح کی پیداوار اور مصنوعی نشہ آور مواد کے بڑھتے بہاؤ نے خطے کو خطرناک بنا دیا ہے۔ پاکستان دنیا کی مصروف ترین منشیات راہداریوں میں سے ایک پر واقع ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی خلیج میں بڑھتی طلب اور پاکستان سے مزدوروں کی آمد و رفت خطرناک طور پر جڑ چکی ہیں۔ وہی راستے جو روزگار لاتے ہیں، سمگلنگ کی راہداریاں بن سکتے ہیں۔ اکثر بےخبر مزدور منشیات کے کیریئر بن جاتے ہیں، جبکہ خواتین دباؤ یا بدنامی کے باعث اس وبا کا پوشیدہ شکار بن جاتی ہیں۔

بحیثیت سابق وفاقی سیکریٹری برائے انسدادِ منشیات، میں نے اس نظام کی کمزوریاں قریب سے دیکھی ہیں۔ جال میں ہمیشہ چھوٹی مچھلیاں پھنس جاتی ہیں، یعنی وہ طلبہ جو دباؤ میں آ کر پھنس جاتے ہیں، یا وہ مزدور جو غربت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں، جبکہ اصل مجرم سائے میں محفوظ رہتے ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ منشیات کے کارٹیل، جرائم پیشہ نیٹ ورکس اور دہشت گرد گروہ ان سے مالی مدد لیتے ہیں، مگر ان کے سرغنوں کو پکڑنا آج بھی ایک معمہ ہے۔ جب تک نظام ان کے خلاف کارروائی کا حوصلہ نہیں کرتا، ہم صرف درخت کی پتیاں کاٹ رہے ہیں جبکہ جڑیں پھیلتی جا رہی ہیں۔

منشیات کے بارے میں پھیلی غلط فہمیاں بھی مسئلے کو بڑھاتی ہیں۔

پہلا مفروضہ یہ ہے کہ صرف گرفتاریاں مسئلہ حل کر دیں گی۔ ایسا نہیں ہو گا۔ انسداد کے ساتھ ساتھ آگاہی، علاج اور بحالی کے بغیر کارروائی صرف اگلے گروہ کے لیے جگہ خالی کرتی ہے۔

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ ہر سمگلر ناقابلِ اصلاح ہے۔ حقیقت میں، ان میں سے بہت سے عام نوجوان ہوتے ہیں، جو دھوکے یا مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔

انہیں مجرم نہیں بلکہ مریض سمجھ کر مشاورت، بحالی اور دوبارہ شمولیت کے مواقع دینا ضروری ہے۔

آنے والے دنوں میں منظرنامہ مزید خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، ڈارک ویب مارکیٹس اور کرپٹو کرنسی نے سمگلنگ کے طریقے بدل دیے ہیں۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مصنوعی منشیات مزید پھیلیں گی کیونکہ وہ سستی، آسانی سے تیار ہونے والی اور شناخت سے مشکل ہیں۔

مہاجرت اور حج و عمرہ کے راستے بھی حساس رہیں گے اور اگر خلیجی ممالک نے پاکستان کو منشیات کا منبع سمجھنا شروع کیا تو ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرنے والی ترسیلات خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

اسی لیے سندھ کا کریک ڈاؤن اہم ہے۔ یہ محض پولیس کارروائی نہیں بلکہ نئی حکمتِ عملی کے لیے ایک موقع ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ آگاہی مہمات، کمیونٹی نیٹ ورکس، سکول پروگرام، بحالی مراکز اور مہاجر مزدوروں کے تحفظ کو بھی شامل کرنا ہو گا۔

اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو خلیجی ممالک کے ساتھ صرف انٹیلی جنس نہیں بلکہ مشترکہ حل کے لیے شراکت کرنی ہو گی، طلب میں کمی لانا ہو گی، مزدوروں کے بہاؤ کی نگرانی کرنا ہو گی اور بحالی میں تعاون کرنا ہو گا۔

کیونکہ یہ بحران محض اعداد و شمار نہیں ہے، یہ حقیقی طلبہ کی کہانیاں ہیں جو کلاس روم سے گینگ کے ہتھے چڑھ گئے۔ وہ مزدور جو نوکری کے خواب لیے نکلے اور جیل میں جا پہنچے۔ وہ گھرانے جن کی خاموشی کے پیچھے تباہی چھپی ہے۔

پولیس کی کارروائیاں وقتی طور پر اس مسئلے کو روک سکتی ہیں، مگر مستقل حل صرف ایک ہمہ گیر معاشرتی ردِعمل ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں، اساتذہ، والدین، ڈاکٹروں، پالیسی سازوں اور علاقائی اتحادیوں، سب کو مل کر اس چکر کو توڑنا ہو گا۔

اگر اس وبا کو نہ روکا گیا تو یہ پاکستان کے نوجوانوں کو کھوکھلا کر دے گی، ملک کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچائے گی اور معیشت کی سانس روک دے گی۔

لیکن اگر دانشمندی سے اس لمحے کو استعمال کیا گیا تو یہ آپریشنز پاکستان اور خلیج کے درمیان منشیات کے خلاف ایک نئے ماڈل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

 منشیات کے خلاف جنگ صرف جرائم پر قابو پانے کی کوشش نہیں، یہ آنے والے کل کو بچانے کی جدوجہد ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر