حکمران طبقے اپنے مفادات اور عظمت کے لیے عوام میں مذہبی قوم پرستی اور نسل پرستی کے جذبات کو ابھار کر انہیں جنگوں میں قربان کر دیتے ہیں۔ اگر یہی عوام اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو حکومت ان کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور ان کی مزاحمت کو کچل دیتی ہے۔
تاریخ میں ضرورت کے وقت حکومت عوام کو محب وطن کہتی ہے، لیکن جب عوام اپنی قربانیوں کا صلہ مانگتے ہیں تو حکومتوں کی نظروں میں یہ غدار اور شرپسند ہو جاتے ہیں۔ حکومت کے لیے عوام کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی جانوں کی قربانی کا کوئی احساس ہوتا ہے۔
فرانسیسی ناول نگار بالزاک نے اپنے ایک ناول میں یہ بتایا ہے کہ فرانسیسی امرا کی ایک عورت کے ملازم نے ان امرا کی مدد کی جو فرار ہونے کے بعد واپس فرانس آئے تھے۔ یہ ایک جرم تھا جس پر اس ملازم کو سزائے موت دی گئی۔ امیر خاندان کی یہ عورت اس کی سفارش کے لیے نپولین کے پاس گئی جو اس وقت یینا کے علاقے میں پرشیا سے جنگ میں مصروف تھا۔
جب وہ اس کے پاس پہنچی تو رات ہو چکی تھی۔ نپولین نے شام کا کھانا کھایا، کافی پی اور پھر اس عورت کو لے کر اپنے خیمے سے باہر گیا جہاں ایک کیمپ میں فرانسیسی فوجی صبح ہونے والی جنگ کی تیاری کر رہے تھے۔
نپولین نے عورت سے مخاطب ہو کر کہا، ’اس جانب ہزاروں فوجی (فرانسیسی) اس کیمپ میں ہیں، دوسری جانب اتنے ہی ہزار پرشیا کے کیمپ میں ہیں۔ صبح جب جنگ ہو گی تو ان میں سے تقریباً 20 ہزار فوجی مارے جائیں گے۔ مجھے اس کی کوئی فکر نہیں ہے اور تم ایک فرد کے لیے موت کی سزا کو معاف کرانا چاہتی ہو۔‘
فوجی جنرل کی حیثیت سے نپولین نے کئی جنگیں لڑیں اور ہزاروں فوجیوں کو قربان کر کے خود کو فاتح بنایا۔ اسے ان فوجیوں کی جانی قربانی کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ 1812 میں جب اس نے ایک گرینڈ آرمی کے ساتھ جس میں لاکھوں فوجی تھے، روس پر حملہ کیا۔ اس نے ماسکو پر قبضہ بھی کر لیا تھا مگر جب زار روس نے ہتھیار نہیں ڈالے تو اس کے لیے اتنی بڑی فوج کو زیادہ عرصے کے لیے روس میں رکھنا مشکل تھا۔
اس لیے اس نے واپسی کا اعلان کیا۔ اس وقت موسم سخت سرد ہو چکا تھا۔ برف باری ہو رہی تھی روسی فوجی عقب سے حملہ کر کے غائب ہو جاتے تھے۔ فوج کے پاس کھانے کو کچھ نہیں رہا تھا۔ نپولین اپنی فوج کو چھوڑ کر برف گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہوا۔
راستے میں اسے گرم کھانا ملتا رہا اور یہاں تک کہ وہ پیرس پہنچ گیا۔ اس کی گرینڈ آرمی کا اکثر حصہ سردی اور بھوک سے مر گیا۔
1815 میں واٹر لو کے مقام پر یورپی افواج نے مل کر نپولین کو شکست دی۔ اس جنگ میں برطانوی فوجی بھی تھے لیکن مورخ تاریخ میں عام فوجیوں کی بجائے فتح کا سہرا جنرل ویلنگٹن کے سر باندھتے ہیں۔
نپولین کی جنگوں کے دوران اور بعد میں انگلستان میں ورکنگ کلاس کی تحریکیں ابھریں۔ ٹریڈ یونین نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں 1817 میں مانچسٹر کے مقام پر مزدوروں کا ایک بڑا اجتماع ہوا۔ اس میں پرزور تقریریں کی گئیں۔
عام تاثر یہ تھا کہ برطانوی فوجیوں نے نپولین کو شکست دے کر ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے، اس لیے حکومت ان کے مطالبات کو مانے گی اور ان کی محنت و مشقت کامعاوضہ دیا جائے گا، مگر یہ تاثر غلط ثابت ہوا۔ حکومت نے ان کو اپنا دشمن سمجھا اور فیکٹری کے مالکوں نے ان کے احتجاج کو سرمایہ داری کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔
اس سے پہلے بھی مزدوروں کے احتجاج اور ہڑتالوں پر عدالت کا یہ فیصلہ تھا کہ ان کے نتیجے میں فیکٹریوں کو جو مالی نقصان ہو گا، اس کی ادائیگی مزدوروں کو کرنی ہو گی۔
یہ اسی قسم کا فیصلہ تھا کہ جب غلامی کا خاتمہ ہوا تو آزاد ہونے والے غلاموں سے کہا گیا کہ وہ اپنی آزادی کی قیمت مالکوں کو ادا کریں۔ یہ نہیں سوچا گیا کہ ان غلاموں سے جو بیگار میں کام کرایا گیا اور کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا تو اس کا کیا ہو گا۔
مانچسٹر میں مزدوروں کے اس مجمعے پر فائرنگ کر کے کئی سو مزدوروں کو مار دیا گیا اور ان کی مزاحمت کو کچل کر ان کو حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ یہی واقعہ پیٹر لو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مزدوروں کے ایک احتجاج کو امریکی شہر شکاگو میں 1886 میں ہوا تھا۔ اس کو سختی سے کچل کر مزدوروں کے راہنمائوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ یکم مئی مزدوروں کا دن اسی واقعے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب حکومت کو عام لوگوں کو مدد چاہیے ہوتی ہے تو خوشامد اور سختی کے ساتھ عوام کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ 1914 کی پہلی جنگ عظیم میں جب برطانیہ کو فوجیوں کی ضرورت تھی تو انہوں نے خاص طور سے پنجاب کے گائوں کے نوجوانوں کو انتظامیہ کی مدد سے فوج میں بھرتی کرایا۔ اس پر بہت سے نوجوانوں نے بھاگ کر جنگلوں میں پناہ لی جو نوجوان پکڑے گئے تھے انہیں جنگی محاذ پر بھیج دیا گیا جہاں سخت سردی اور خندقوں میں بیٹھ کر انہوں نے جنگ میں حصہ لیا اور لاکھوں کی تعداد میں یہ نوجوان مارے گئے۔
اس احسان کا بدلہ برطانوی حکومت نے یہ دیا کہ 1919 میں جلیانوالہ باغ میں نہتے لوگوں کا قتل عام کیا۔ عوام کے خلاف یہ پالیسی ہندوستان میں جاری رہی۔ 1930 میں پشاور کے قصہ خوانی بازار میں خان عبدالغفار خان کی جماعت کے پرامن جلسے پر فوج نے گولیاں چلا کر کئی لوگوں کو قتل کر کے جلسے کو ختم کرایا۔
تاریخ میں ایسے واقعات کی کمی نہیں جب عوام اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کرتے ہیں یا جلوس نکالتے ہیں تو حکومت ان کو اپنا دشمن سمجھ کر ان سے جنگ کرتی ہے۔ عوامی احتجاجوں کے لیے حکومت آنسو گیس اور پانی کی توپ کے ذریعے عوام کو بکھیرنا لاٹھی چارج کرنا حکومت کی پالیسی ہے۔
اس رویے کی وجہ سے حکومت اور عوام میں دوری ہو جاتی ہے جو ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر نفرت کرتے ہیں اور ملک کا امن و امان برباد ہو جاتا ہے۔