سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور ترقی سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلے میں کہا کہ ’ترقی کے اہل افسر کو ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی پروموشن دی جا سکتی ہے۔ ترقی کے لیے ہر سرکاری ملازم کو زیرِ غور لایا جانا بنیادی حق ہے۔‘
عدالت نے مزید کہا کہ ’ریٹائرڈ افسران کو دیر سے انصاف دینا غیر منصفانہ ہے۔ تمام سرکاری ادارے ترقی کے معاملات میں شفاف اور فوری فیصلے کریں۔‘
چار جون کو کراچی رجسٹری میں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 21ویں گریڈ کے پولیس افسر جنہیں 22 ویں گریڈ میں ترقی نہیں دی گئی، کی طرف سے دائر درخواست کی اپیل کی سماعت کی۔
درخواست گزار نے ترقی نہ ملنے اور ناانصافی پر 2018 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے جنوری 2022 میں درخواست مسترد کر دی تھی۔
درخواست نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ جہاں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے پانچ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں لکھا کہ ’ہائی پاورڈ سیلیکشن بورڈ دوبارہ دو ماہ میں درخواست گزار کا کیس میرٹ پر سنے، درخواست گزار پولیس سروس کے سینیئر افسر تھے، تین بار ترقی سے محروم رہے۔ 2013 سے 2018 تک تمام کارکردگی رپورٹس بہترین تھیں۔ ہائی پاورڈ سیلیکشن بورڈ نے بغیر ٹھوس وجہ بتائے ترقی نہیں دی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ فیصلے میں نے مزید کہا کہ ’ہائی پاورڈ سیلیکشن بورڈ کے منٹس میں منفی ریمارکس بغیر کسی ثبوت کے شامل کیے گئے۔ درخواست گزار کی ساکھ پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔‘
ماضی قریب کی مثال
نومبر 2022 میں آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تھری سٹار سے فور سٹار ترقی کا نوٹیفیکیشن 24 نومبر کو ہو گیا تھا جس کا اطلاق فوری تھا جبکہ بطور آرمی چیف تعیناتی کا اطلاق 29 نومبر سے شروع ہوا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بطور تھری سٹار جنرل ریٹائرمنٹ 27 نومبر کو ہونا تھی لیکن انہیں 24 نومبر کو فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر قانونی پیچیدگیوں کو ختم کیا گیا۔
اس معاملے پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے بیان بھی دیا تھا کہ ’عاصم منیر 27 نومبر 2022 کو ریٹائر ہو رہے ہیں، لیکن اگر انہیں ریٹائرمنٹ سے ایک دو روز پہلے پروموٹ کردیا جائے تو وہ سینیئر موسٹ ہو جائیں گے اور آرمی چیف کی دوڑ میں پہلے نمبر پر آجائیں گے۔‘