جب کابل پر ہندوستان کا پرچم لہراتا تھا

افغان صرف احمد شاہ ابدالی کے دور کی سرحدوں کو یاد رکھے ہوئے ہیں، اگر انہیں اشوکِ اعظم سے لے کر مغلوں کے عہد کی تاریخ یاد ہے تو پھر کابل بھی ہندوستان کے ان علاقوں کا ہی حصہ ہے جہاں آج ریاست پاکستان موجود ہے۔

افغان خواتین 18 مئی 2025 کو کابل میں انڈین حکومت کی جانب سے عطیہ کی گئی غذائی امداد وصول کرتے ہوئے (اے ایف پی)

افغانستان کی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ میں ایک بات جو اسے ہندوستان سے مماثل بناتی ہے وہ یہ ہے کہ جس بیرونی حملہ آور نے بھی ہندوستان کو فتح کیا، وہ سب سے پہلے کابل میں اپنے جھنڈے گاڑ کر آیا۔

قبل از مسیح میں باختری، یونانی، کشان اور پھر غلامان، خلجی، تغلق، لودھی اور آخر میں مغل، یہ سارے حملہ آور افغانستان کے راستے ہی ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ مغلوں نے افغانستان پر تقریباً دو سو سال نہ صرف براہِ راست حکمرانی کی بلکہ مغلوں کے عہد میں افغانستان کو ہندوستان کا ہی ایک صوبہ قرار دیا گیا تھا۔

افغانستان کا سماجی ڈھانچہ قبل از تاریخ سے ہی قبائلی رہا ہے اور یہاں ہمیشہ مرکزی حکومت کا فقدان رہا ہے۔ اس لیے بیرونی حملہ آوروں کے لیے اس کی حیثیت ایک پڑاؤ کی طرح رہی جنہوں نے افغانستان میں بیٹھ کر ہندوستان پر حملے کی منصوبہ بندی کی، وہاں سے جنگجو بھرتی کیے اور پھر ہندوستان پر چڑھ دوڑے۔

افغانستان نے نہ تو کسی بیرونی حملہ آور کو روکا اور نہ ہی اس کا ریاستی ڈھانچہ ایسا تھا کہ وہاں سے اجتماعی مزاحمت ممکن ہوتی۔ جب کبھی ہندوستان میں کوئی حکومت طاقت پکڑ لیتی تو وہ ہندوستانی خطے کی جغرافیائی اہمیت کی خاطر یہاں بھی قبضہ کر لیتی۔

قبل از مسیح افغانستان پر کس کی حکمرانی تھی؟

وادی سندھ کی تہذیب کا معلوم اوّلین شہر مہر گڑھ ہے جس کی تاریخ سات ہزار سال قبل مسیح تک بیان کی جاتی ہے، یہ عہد دراصل شہری ریاستوں کا تھا۔

افغانستان کی تاریخ بدھ مت کے آثار سے جڑی ہوئی ہے، اس سے قبل کے افغانستان کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔ ہندوستان میں چندرگپت موریہ نے 321 ق م میں موریہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بیٹے اشوکِ اعظم نے 268 ق م میں تخت سنبھالا تو وہ ایک عظیم فرمانروا کے روپ میں ابھرا جس کی سلطنت کی سرحدیں برما سے افغانستان تک پھیلی ہوئی تھیں جن میں کابل، قندھار، ہلمند، غزنی اور لوگر تک کے علاقے شامل تھے۔ افغانستان میں بدھ مت اسی عہد میں پھیلا۔

کشان جو پہلی صدی میں وسط ایشیا سے شمالی ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تھے، ان کا پائہ تخت پہلے کابل کے نزدیک اور بعد میں پشاور تھا۔ گندھارا کو بھی انہوں نے زیر کر لیا تھا جبکہ کابل، بدخشاں اور ہرات تک ان کی عمل داری تھی۔ تب موریہ سلطنت کی سرحدیں جہلم کے پار تک ہی محدود ہو گئی تھیں۔

ہندوستان کا پرچم ہندو شاہیہ دور میں تقریباً دو سو سال تک افغانستان پر لہراتا رہا۔ اس کے فوراً بعد پہلے سلطان محمود غزنوی اور پھر شہاب الدین غوری ایسے حکمران تھے جو افغانستان سے نکلے اور ہندوستان پر حملہ آور ہوئے لیکن یہ نسلًا افغانی نہیں تھے۔ سلطان محمود غزنوی ترک اور شہاب الدین غوری ایرانی نسل کے تھے لیکن وہ افغانستان کے شہر غزنی اور غور سے پہچانے گئے۔

مغلوں نے کابل کو ہندوستانی صوبے کا درجہ دے دیا

مغل چونکہ خود کابل کے راستے ہی ہندوستان آئے تھے اس لیے وہ کابل کی جغرافیائی اہمیت سے آگاہ تھے۔ 1526 سے 1739 تک کے مغل دور میں افغانستان ہندوستان کا ہی ایک صوبہ تھا جہاں دلی کا گورنر تعینات ہوتا تھا۔

سب سے پہلے بابر نے 1504 میں کابل کو ہندوستان کا 14واں صوبہ قرار دیا۔ اس نے کابل کو اپنے بھائیوں یا اپنے قریبی کمانداروں کو دینے کی بجائے اس کا کنٹرول براہِ راست اپنے پاس رکھا۔ بابر کو معلوم تھا کہ کابل کے خشک پہاڑ اور تنگ وادیاں ایک بڑی فوج کو سہارا نہیں دے سکتی تھیں۔

بابر کے بعد جب اس کا بیٹا ہمایوں تخت نشین ہوا تو اس نے اپنی سلطنت کے مختلف علاقوں پر اپنے بھائیوں کو مقرر کر دیا اور کابل کامران مرزا کے زیرِ انتظام آ گیا۔

ہمایوں کے انتقال کے بعد جب اکبر تخت نشین ہوا تو اس نے کابل کو اپنے رضاعی بھائی مرزا حکیم کے سپرد کر دیا۔ مرزا حکیم جب 1585 میں اپنی طبی موت مرا تو اکبر نے کابل کا براہِ راست انتظام سنبھال لیا اور یہاں اسی طرح کا نظام قائم کیا جو ہندوستان کے باقی صوبوں میں رائج تھا۔

مرکزی دربار سے دور ہونے کی وجہ سے کابل کو خاصی توجہ ملی اور اسے مزید سات چھوٹے انتظامی حصوں میں تقسیم کیا گیا جن میں کشمیر، واخان، بھمبر، سوات، باجوڑ، قندھار اور زابلستان کے علاقے شامل تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کشمیر، بھمبر، سوات اور باجوڑ چونکہ آج کے پاکستان میں واقع ہیں اس لیے آج بھی کابل کے حکمران اکبر کی اس تقسیم کے مطابق اسے افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قدیم عہد میں یہ علاقے گندھارا کا حصہ تھے اور کابل بھی ان میں شامل تھا۔ گندھارا کا گورنر ٹیکسلا میں بیٹھتا تھا اور مگدھ اس کی راج دھانی تھی۔

کشمیر کو بعد ازاں جہانگیر کے دور میں کابل سے الگ کر کے صوبے کا درجہ دے دیا گیا۔ جیسے 1634 میں علی مردان خان لاہور کے مغل گورنر تھے لیکن قندھار اور کابل بھی ان کے ماتحت تھے۔

کابل کو مزید کئی حصوں یا ’تُمن‘ میں تقسیم کیا گیا تھا۔ سولہویں صدی کے آغاز میں بابر نے ہندوستان کو چودہ صوبوں میں تقسیم کر رکھا تھا، بعد میں یہ تعداد 20 تک پہنچ گئی۔ بخارا اور سمرقند کی طرح کابل میں بھی تُمن ایک منگول اصطلاح تھی جس کا مطلب دس ہزار جنگجو تھے لیکن یہ دیہات اور قصبوں پر مشتمل ایک سیاسی اکائی بھی تھی۔

افغانستان کا شہر جلال آباد شہنشاہ اکبر کے نام پر بسایا گیا تھا جس کا پرانا نام جوئی شاہی تھا جہاں ہمایوں نے 1552 میں ایک قلعہ بھی بنوایا تھا۔ کابل کے مزید تمانوں میں ننگرہار، گردیز، لوگر، غزنی، میدان، غوربند، کوہ دامن، زہاک بامیان، نغز، بنوں اور فرمل پنجشیر، ہشت نگر، پشاور اور بنگش کے تُمن شامل تھے جن میں کرم اور پارا چنار بھی تھے۔

ہر تُمن کو ایک فوجدار، تھانے دار اور قلعہ دار کنٹرول کرتا تھا۔ یہ امن و امان کے ساتھ تمام محصولات وصول کرنے کے بھی ذمہ دار تھے۔

1707 میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغل سلطنت زوال کا شکار ہو گئی تو اٹھارویں صدی کے وسط میں نادر شاہ درانی نے کابل کے راستے ہندوستان پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں 1739 میں کابل مغلیہ سلطنت سے علیحدہ ہو گیا۔ تختِ دلی کی اندرونی کشمکش کی وجہ سے شمالی ہندوستان کے علاقے سندھ، پنجاب اور بلوچستان افغانی حملہ آوروں کے رحم و کرم پر ہو گئے۔

افغانوں کو مغالطہ کیوں ہے؟

جب نادر شاہ کو 1747 میں قتل کر دیا گیا تو اس کے قابلِ اعتماد جرنیل احمد شاہ ابدالی نے کوہِ نور ہیرے کو قبضے میں لے کر اقتدار سنبھال لیا۔ احمد شاہ ابدالی کو ہی جدید افغانستان کا بانی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے ہاتھ پر تمام قبائلی عمائدین نے بیعت کی تھی۔

دوسری طرف دلی کے تخت پر محمد شاہ رنگیلا جیسا حکمران موجود تھا جو ہندوستان پر احمد شاہ ابدالی کے حملوں کی تاب نہ لا سکا۔ ایک طرف مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی قوت اور دوسری جانب احمد شاہ ابدالی کے حملے دلی کے نااہل حکمرانوں کے لیے ڈراؤنے خواب جیسے تھے۔

لاہور پر 1748 میں احمد شاہ کے دوسرے حملے میں گورنر لاہور میر منو نے نہ صرف ہتھیار ڈال دیے بلکہ دریائے سندھ کے مغرب کا علاقہ بھی احمد شاہ کو دے دیا۔ 1747 میں احمد شاہ نے تیسرا حملہ کیا تو وہ دلی تک پہنچ گیا۔ اس نے مغلوں کو صلح کے لیے تین شرائط پیش کیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ سرہند سے شمال مغرب کی طرف کے تمام علاقے بشمول پنجاب، کشمیر اور ملتان اس کے حوالے کیے جائیں۔

احمد شاہ ابدالی نے ان تمام علاقوں پر اپنے گورنر نامزد کر دیے۔ بعد میں پنجاب پر مرہٹوں نے قبضہ کر لیا تو احمد شاہ ابدالی پھر دوڑ پڑا۔ 6 جنوری 1760 کو شاہ جہان آباد کے قریب مرہٹوں اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان جنگ میں مرہٹوں کو شکست ہوئی اور احمد شاہ ابدالی دلی میں داخل ہو گیا۔

احمد شاہ 16 اکتوبر 1772 کو فوت ہوا تو اس کے بیٹوں میں تخت نشینی کی جنگ چھڑ گئی۔ اس دوران پنجاب میں بارہ سکھ مثلیں ابھر آئیں جنہوں نے کابل کے گورنروں سے پنجاب کو واگزار کروا لیا۔ رنجیت سنگھ جب پنجاب کا متحدہ حکمران بن کر ابھرا تو پنجاب کی سرحدیں ایک بار پھر درۂ خیبر تک پھیل گئیں۔

افغان صرف احمد شاہ ابدالی کے دور کی سرحدوں کو یاد رکھے ہوئے ہیں، اگر انہیں اشوکِ اعظم سے لے کر مغلوں کے عہد کی تاریخ یاد ہے تو پھر کابل بھی ہندوستان کے ان علاقوں کا ہی حصہ ہے جہاں آج ریاست پاکستان موجود ہے۔

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ