اگر آپ نے اس خیال کے تحت پاکستانی ڈراما دیکھنا چھوڑ دیا ہے کہ یہ صرف ساس بہو کی روایتی جنگ یا پھر ہرجائی شوہر، بے وفا محبوب یا پھر فرسودہ رومانی داستانوں پر مبنی ہوتے ہیں تو یقینی طور پر آپ اس سوچ کو تبدیل کریں اور کسی دن ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ کر پرائم ٹائم میں نشر ہونے والے پاکستانی ڈراموں کا نظارہ کریں۔
آپ کو احساس ہو گا کہ اب ان ڈراموں کی کہانیاں بدل چکی ہیں اور ان میں حساس، اہم معاشرتی پہلوؤں اور مسائل کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں آپ بے اختیار تالیاں بجانے پر مجبورہوجائیں گے۔
رواں سال پاکستانی ڈرامے درحقیقت معاشرے کی دھڑکن بنے رہے ہیں۔ یہ ڈرامے بیانیے رہے، معاشرتی اور سماجی احتجاج بن کر ابھرے تو وہیں کئی مقامات پر زخموں پر مرہم کا روپ بھی دھار گئے۔
زیر نظر تحریر میں رواں سال کے ڈراموں کے جائزے میں یہی جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ اس سال پاکستانی ڈرامے نے کون کون سی منزلیں طے کیں، جس کے بعد ناظرین کو احساس ہوا کہ پرائم ٹائم میں نشر ہونے والے ڈرامے اب صرف تفریح نہیں، بلکہ تبدیلی کی آواز بن رہے ہیں۔
گھروں اور رشتوں کے مسائل
رواں سال پاکستانی ڈراموں کا اہم پہلو یہ بھی رہا ہے کہ ان میں زیادہ تر وہ کہانیاں بیان کی گئیں، جو ہمارے ارد گرد گھوم رہی ہوتی ہیں بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے ان کا کسی نہ کسی حوالے سے کوئی تذکرہ سنا ہوتا ہے یا پھر ان کا سامنا بھی ہوچکا ہو۔
یمنیٰ زیدی، اسامہ خان، فیصل رحمان اور تزئین حسین کے ڈراما سیریل ’قرض جاں‘ کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ اگر کوئی جوانی میں بیوگی کا غم سہے تو ضروری نہیں کہ وہ ساری زندگی اسی حالت میں گزار دے بلکہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ پھر سے ایک نئی زندگی کا آغاز کرے۔
ڈرامے میں بیوہ ماں کو پھر سے دلہن بنانے کے لیے بیٹی ایک اہم قدم اٹھاتی ہے جو ناظرین کے دلوں کو چھو گیا۔ ڈرامے کا ہی اثر ہے کہ رواں سال کئی ایسے واقعات پیش آئے جن میں اولاد نے اپنی بیوہ ماں کی دوسری شادی بھی کروائی۔
اسی ڈرامے میں جبری شادیوں اور یتیم بچوں کے درد کو بھی انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش گیا گیا۔
اسی طرح ڈراما سیریل ’جمع تقسیم‘ میں مشترکہ خاندانی نظام میں زہریلے رویوں، قریبی رشتے داروں کی طرف سے ہراسانی، میاں بیوی کے بدلتے تعلقات اور بوڑھے والدین کی دیکھ بھال جیسے اہم مسائل کو اٹھایا گیا۔
جاوید شیخ، ماورہ حسین، حسن احمد اور طلحہ ڈرامے کے مرکزی اداکاروں میں شامل رہے۔ اس ڈرامے کو بہت پسند کیا گیا کیونکہ ہر کسی کی نجی زندگی میں اس سے جڑے ہوئے تجربات شامل رہے، ڈرامے کا اہم پہلو گھر میں ایک ساتھ رہنے والے کزن کی طرف سے جنسی ہراسانی کا موضوع بھی زیر بحث رہا۔
کزنز کے ہی گرد گھومنے والا ڈراما سیریل ’بریانی‘ بھی رہا۔ کزن میرج کے اہم مسئلے کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اس ڈرامے میں پیش کیا گیا۔ ثروت گیلانی، خوشحال خان، رمشا خان اور لیلیٰ واسطی ڈرامے کے اہم کردار رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی ڈراموں میں کزن میرج پر اصرار کرتی کہانیاں ہوتی ہیں لیکن ’بریانی‘ اس نوعیت کی شادیوں کے نفسیاتی اور جسمانی اثرات کی عکاسی کرتا رہا۔
صبا قمر کی فطری اداکاری سے سجا شاہکار ڈراما سیریل ’پامال‘ بھی اہم ہے، جس کے کرداروں کے ذریعے یہ پیش کیا گیا کہ ظلم ہمیشہ جسمانی یا نظر آنے والا نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھار عورت جو بظاہر بہت مضبوط اور خوش حال زندگی گزارتی نظر آتی ہے، وہ درحقیقت اندر سے ناقابل برداشت درد اور جبر سہہ رہی ہوتی ہے۔
ڈرامے کے کئی مناظر سوشل میڈیا پر موضوع بحث بھی رہے لیکن یہ کہنا درست ہوگا کہ اس تخلیق کے ہر منظر اور ہر واقعے نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔
ڈراما سیریل ’پرورش‘ میں دو نسلوں کے درمیان نظریاتی فرق اور اختلاف کو خوبصورت ڈرامائی تشکیل اورمکالمات سے اجاگر کیا گیا۔ ڈرامے میں نوعمری کی محبت، کیریئر کے انتخاب میں والدین کی پسند او ناپسند اور پھر منشیات کے استعمال پر بھی بات کی گئی۔
نعمان اعجاز اور ثمر عباس جعفری کے درمیان بطور والد اور بیٹے کے مکالمات انتہائی جاندار رہے جبکہ ڈرامے میں عینہ آصف اور ریحام رفیق کی اداکاری کا معیار بھی انتہائی غیر معمولی رہا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس سال کا سب سے دھماکہ خیز ڈراما سیریل ’تن من نیل ونیل‘ رہا۔ مصطفیٰ آفریدی کے مکالمات نشتر بن کر ہر ایک کی روح میں پیوست ہوئے۔ ڈرامے کو بہترین انداز میں ہدایت کار سیفی حسن نے عکس بند کیا۔
آخری قسط نے ہر پاکستانی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا جس میں چند مفاد پرست اپنی انا کی تسکین کے لیے توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر ہجوم کو ایسا مشتعل کرتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر گلی کو خون میں رنگ دیتے ہیں لیکن المیہ یہ ہوتا ہے کہ الزام لگانے والے کا والد بھی مشتعل اور جنونی ہجوم کی گرفت میں آ جاتا ہے۔
اس ڈرامے میں سحر خان، شجاع اسد، نعمان مسعود، سامعہ ممتاز اور علی عامر نے لوگوں کے دل جیت لیے۔
جرم اور سزا کی داستانیں
ڈراما سیریل ’شیر‘ کے ذریعے ایک طویل عرصے بعد دانش تیمور اور سارہ خان کی واپسی ہوئی۔ ڈراما دو خاندانوں کے درمیان پرانی دشمنی کے گرد گھومتا رہا، جس کا مرکزی خیال یہی رہا کہ برائی کا انجام برائی پر ہی ہوتا ہے۔
کچھ اسی نوعیت کی عکاسی ڈراما سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کی رہی، جس میں دکھایا گیا کہ خاندانی دشمنی نے کس طرح کئی نسلوں کو ایسا برباد کیا کہ رشتے اور تعلق بے معنی ہوگئے۔
ڈراما سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ پر یہ بھی اعتراض کیا گیا کہ اس میں شاگرد اور استاد کے مقدس رشتے کو پامال کرتے ہوئے انہیں رومانوی روپ میں پیش کیوں کیا گیا۔ بہرحال ڈراما سیریل اپنی مضبوط سٹار کاسٹ کی وجہ سے پسند کیا گیا۔ اس ڈرامے کو خلیل الرحمان قمر نے لکھا جبکہ ندیم بیگ کی ہدایت کاری لاجواب رہی۔
اسی طرح ہمایوں سعید، سجل علی، صائمہ نور، آصف رضا میر، بابر علی، صبا حمید اور سلمان شاہد کی بھاری بھرکم سٹار کاسٹ نے ناظرین کو مجبور کیا کہ وہ اس تخلیق کی ہر اگلی قسط کا بے چینی سے انتظار کریں۔ بہرحال تنقید نگاروں کا یہ کہنا تھا کہ ڈرامے کے مکالمے خاصے فلسفیانہ رہے۔ یہ مکالمات ایسے تھے جو عام زندگی میں کوئی ادا نہیں کرتا۔
ڈراما سیریل ’ہم راز‘ بھی اسی انتقام اور بدلہ لینے کی چالوں پر مبنی رہا جس میں فیروز خان اور عائزہ خان کی جوڑی نے ناظرین کو خاصا متاثر کیا۔
بہرحال رواں سال جو ڈراما سب سے زیادہ موضوع بحث رہا وہ صحافی اور ٹی وی میزبان شاہ زیب خانزادہ کا ’کیس نمبر 9‘ تھا۔ صبا قمر، فیصل قریشی، جنید خان اور آمنہ شیخ جیسے اداکاروں کی موجودگی میں ڈرامے نے مقبولیت کی ہر سرحد کو پار کیا۔ ڈرامے کے ذریعے زیادتی کا شکار خواتین کو قانونی رہنمائی دی گئی۔ وہیں دفاتر میں جنسی ہراسانی جیسے اہم مسئلے کو بھی بیان کیا گیا۔
صبا قمر کی اداکاری کا معیار حسب روایت عروج پر رہا۔ درحقیقت یہ ڈراما صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک آواز بن گیا ہے۔
محبت سے لبریز ڈرامے
رواں سال مختلف ٹی وی چینلز سے رومان پرور اور محبت کی کہانی بیان کرتے ڈرامے بھی پیش کیے گئے، ان میں ڈراما سیریل ’میم سے محبت‘ نمایاں رہا، جس میں احد رضا میر اور دنانیر مبین مرکزی کردار میں رہے۔ ڈرامے کی کہانی کے مطابق معصوم لڑکی اپنے سخت مزاج باس سے پیار کر بیٹھتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دفتر کی محبت، گھر والوں کا دباؤ اور قسمت کے کھیل یہی ڈرامے کا خاصہ تھا ۔ ناظرین کو احد رضا میر اور دنانیر کی جوڑی خاصی بھائی لیکن کچھ کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ ڈراما سیریل درحقیقت ماضی کے شہرہ آفاق ڈرامے ’ان کہی‘ کا جدید ورژن رہا۔
حال ہی میں شروع ہونے والے ڈراما سیریل ’میری زندگی ہے تو‘ نے بھی پسندیدگی کے کئی نئے ریکارڈ بنالیے ہیں۔ محبت سے لبریز اس ڈرامے میں ہانیہ عامر اور بلال عباس کی جوڑی کو خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔ یہ ڈراما اس لیے بھی پسند کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ’کبھی میں کبھی تم‘ کے بعد ہانیہ عامر کا ایک اور شاہکار ہے۔
اب ذرا تصور کریں کہ کسی جن زادی کو انسان سے محبت ہوجائے تو کیا ہوگا؟ کچھ ایسا ہی نظارہ ڈراما سیریل ’جن کی شادی اُن کی شادی‘ میں دیکھنے کو ملا۔ ڈرامے میں ناظرین کو کامیڈی بھی ملی، وہیں پیار و محبت بھی۔ جن زادی کے روپ میں سحر خان جلوہ افروز ہوئیں، جن کی جوڑی وہاج علی کے ساتھ خوب رہی۔
ڈائریکٹر نے کمال مہارت سے ڈرامے میں وی ایف ایکس کا استعمال کرتے ہوئے مناظر کو عکس بند کیا۔
ان ڈراموں کے علاوہ دیگر ڈراموں کو بھی پسند کیا گیا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ سوپ ڈرامے اب تک ساس، بہو، سوتن، محبوب اور ظالم رشتے داروں کی سازشوں سے اپنی جان نہیں چھڑوا پا رہے۔
بہرحال یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستانی ڈراما ایک حقیقت، فکر اور ایک باشعور تحریک کا روپ دھار چکا ہے، جن کی کہانیاں ناظرین کو سوچنے، سمجھنے اور ان کے طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔