مہنگے اور قیمتی ملبوسات، محلات نما وسیع و عریض گھر اور دفاتر، جدید ترین گاڑیوں کی ظفر موج اور محافظوں کے جھرمٹ میں ہیرو کی آمد، منظر بدلتا ہے تو ہیروئن سکرین پر جلوہ افروز ہوتی ہے جس کے انداز اور تیور دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اپنے شاہانہ اور پرتعیش طرزِ عمل سے ہیرو کے مقابلے پر اتری ہوئی ہے۔
یہ جلوے دورِ حاضر کے پاکستانی ڈراموں کا اب لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ پاکستانی ڈراموں میں عیش و عشرت، شان و شوکت اور امارات کی ایسی بیش بہا عکاسی کی جا رہی ہے کہ ڈراموں کو دیکھ کر عام ناظر تو جیسے احساسِ محرومی کا شکار ہونے لگے۔
اب ہمارے ڈراموں میں غربت کی جگہ ہے اور نہ ہی مڈل کلاس خاندانوں کی۔ اب یہ طبقہ ان ڈراموں میں صرف گھروں میں کام کرنے والے افراد تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اب وہ ماسیاں بھی ہو سکتی ہیں، ملازم ہو سکتے ہیں یا پھر ڈرائیور یا مالی بھی، جو ’مہمان‘ بن کر سکرین پر وقتِ ضرورت اپنی رونمائی کراتے رہتے ہیں۔ ان کی پریشانیوں اور مشکلات سے کسی کو کوئی غرض یا سروکار نہیں۔
بقول ہمارے ڈراما رائٹر دوست کے، کمرشل دور ہے، پروڈکشن ہاؤسز بھی چمکنے والی چیزیں ہی فروخت کر رہے ہیں۔ اب تو ہیرو اور ہیروئن کے پیار کا احساس بھی ان کی شاہانہ طرزِ زندگی میں قید ہو کر رہ گیا ہے۔
ڈراموں میں کبھی پیار کرنے والوں کے درمیان طبقاتی فرق اہم موضوع ہوتا تھا یا پھر امیر و غریب کی جنگ چھڑی رہتی تھی، لیکن اب دورِ حاضر کے ڈراموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان میں پیار و محبت کا حق بھی متوسط طبقے سے چھین لیا گیا ہے۔ اب ڈراموں میں ہیرو یا ہیروئن کسی درخت کے سائے میں ایک دوسرے کا انتظار کرتے نظر نہیں آتے بلکہ اب تو پیار کا اظہار مہنگے اور غیر ملکی ریسٹورنٹ یا شاندار شاپنگ مال کے یخ بستہ ہال میں کیا جا رہا ہوتا ہے۔
ذرا پلٹ کر پاکستانی پرانے ڈراموں کا جائزہ لیں تو ان کا خاصہ یہی رہا کہ یہ عام انسانوں کی کہانی سناتے اور دکھاتے۔ ہیرو یا ہیروئن ہوں، گھریلو سے کردار ہوتے جو سادگی سے بھرپور زندگی میں رہتے ہوئے ڈرامے کی کہانی کو مختلف نشیب و فراز سے گزارتے۔ کہانیاں متوسط، درمیانے یا پھر نچلے طبقے کے گرد گھوم رہی ہوتیں۔ ان ڈراموں میں بلند مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کی داستان ہوتی جو یقینی طور پر ناظرین کو متاثر کرتی، ساتھ ہی انہیں اس بات کا احساس بھی دلاتی کہ غلط راہ کا انتخاب انہیں کن مشکلات اور دشواریوں سے دوچار کر سکتا ہے۔ اگر کسی کی محبت میں طبقاتی فرق حائل ہوتا تو ہیرو جی جان لگا کر وہ مقام حاصل کرتا کہ ہیروئن اس کے گھر کے آنگن کا روشن چراغ بننے پر فخر محسوس کرتی، یعنی ہر ڈراما کوئی مثبت پیش قدمی والے پیغام سے آراستہ ہوتا۔
خیر اب تو یہ عالم ہے کہ کسی کی غربت کے اندھیروں میں گزری زندگی کو اجالا محنت سے نہیں بلکہ شیئرز کے کاروبار سے راتوں رات ملتا ہے۔ یاد ہے نا ڈراما سیریل ’میرے پاس تم ہو‘، جس میں انڈین فلم ’دھڑکن‘ کے ہیرو سنیل شیٹی کی طرح ہمایوں سعید بھی اچانک ایسے کروڑ پتی بن جاتے ہیں کہ نیوز چینلز والے بھی اس ’شارٹ کٹ‘ پر سیر حاصل گفتگو سے خود کو باز نہ رکھ پائے۔
کچھ ایسا ہی ڈراما سیریل ’پری زاد‘ میں بھی ہوا جب ہیرو کو اس کا دولت مند مالک اپنی تمام تر جائیداد سونپ کر اسے واقعی ’ہیرو‘ بنا دیتا ہے۔ اب یہ سمجھ لیں کہ طے کر لیا گیا ہے کہ ہیرو عام سا ہو گا تو اسے خاص بنانے کے لیے ہر انہونی کی جائے گی، ہاں، محنت اور لگن یا پھر جدوجہد کے ’لانگ کٹ‘ پر زیادہ انحصار نہیں کیا جائے گا۔
ماضی کے ڈراموں میں، چاہے وہ ’خدا کی بستی‘ ہو، ’وارث‘، ’شمع‘، ’ان کہی‘ یا ’دہلیز‘، یا پھر ’جانگلوس‘، ’نجات‘ یا کوئی اور ڈراما، ان تخلیقات کی یہ خاصیت رہی کہ ان میں معاشرے کے ہر طبقے اور ہر پہلو کی عکاسی ملتی، ہر ایک کی کہانی شامل ہوتی۔ ان ڈراموں کا ہیرو عام سا ہوتا جسے سکرین پر دیکھ کر دیکھنے والے کو اپنائیت محسوس ہوتی۔ بلکہ ناظر کو بسا اوقات یہ بھی احساس ہوتا کہ یہ جیسے اس کا عکس ہے۔ لیکن پھر دھیرے دھیرے ڈرامے اور اس کی کہانیاں چھوٹے چھوٹے کمروں کے سیٹس سے نکل کر عالی شان محلوں میں ہونے والے واقعات کی داستان میں تبدیل ہوتی گئیں۔ پھر شہر شہر کا سفر ہوا اور پھر اسے دیس بدیس تک لے جایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس رجحان کو تقویت انڈین فلمز سے ملی جہاں اب کوئی امیر کبیر والد، ہیرو کو ’بلینک چیک‘ پیش کر کے یہ نہیں کہتا کہ اس کی بیٹی کی زندگی سے نکل جانے کی جو چاہو قیمت بھر لو۔ رہی سہی کسر انڈین ڈراموں نے پوری کر دی جہاں ہیروئن، ہیرو اور معاون اداکار بھاری بھرکم مہنگے قیمتی ملبوسات پہنے اور چہروں پر منوں میک اپ تھونپے، ہیروں اور زیورات سے لدے ہوتے جن کا سارا وقت ’گھریلو سیاست‘ کی بساط پر چالیں چلنے میں استعمال ہوتا۔ بس کیا تھا، پاکستان میں بھی ڈراما انڈسٹری نے اس روش کو اختیار کیا۔
کہاں کہ پرانے زمانے کے ڈرامے کی ہیروئن سبھی اقساط میں چار سے پانچ جوڑوں میں ڈراما مکمل کر لیتی تھی، اور اب ایک ہی قسط میں ہیروئن کے چھ سے سات ملبوسات ڈرامے کے لیے لازمی تصور کیے جاتے ہیں۔ گویا کہانی اور اداکاری کے بجائے یہ ثانوی اشیا اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ ان ہیروئنز یا ہیروز کے سراپوں کو دیکھ کر ہی ناظرین فیشن کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ یعنی یہ سمجھیں کہ اب ڈراما ’فیشن ٹرینڈ‘ بنانے میں نمایاں ہو گیا ہے۔
پاکستانی ڈراموں میں گاؤں دیہات کی کہانیاں آج بھی پیش کی جا رہی ہیں، لیکن یہاں بھی واقعات اور حالات زمینداروں اور جاگیرداروں کے چنگل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ کشادہ حویلیوں میں تنگ نظر خیالات کی کہانیاں موضوع بنی ہوتی ہیں۔ طبقاتی کشمکش، جو کبھی ڈراموں کو متاثر کرتی تھیں، اب فیشن زدہ ماحول میں یہ کشمکش بھی پس پردہ چلی گئی ہے۔
واقعی، ہیرو غیر معمولی ہوتا ہے، تبھی تو وہ ہیرو کہلاتا ہے۔ کوئی غیر معمولی اور چونکا دینے والا کام کرتا ہے تو ہیرو کہنے کا مستحق ہوتا ہے۔ اس وقت ٹی وی ڈراموں کے ہیرو ہیروئن سب کچھ ہیں، لیکن ’غریب‘ نہیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔