کوئی چار پانچ سال پہلے کی بات ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ہوم چینل سے’ارطغرل غازی‘ کا پہلا سیزن نشر ہوا تو اس تخلیق نے ریٹنگ کے کئی نئے ریکارڈ قائم کردیے۔ جو ناظرین پی ٹی وی کو بھول چکے تھے وہ پھر سے اس چینل کی طرف متوجہ ہوئے۔ احساس یہی ہوا ہے کہ پی ٹی وی کا پھر سے تاریخی اور سنہری دور لوٹ آیا۔
لیکن پھر سیریز کے ختم ہونے کے بعد پی ٹی وی کا جو سحر قائم ہوا تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ اب آپ ذرا ذہن پر زور دے کر بتائیں کہ ’ارطغرل غازی‘ کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن کا ایسا کوئی ڈراما یا پروگرام رہا ہے جس کا کسی اور سے سن کر آپ پی ٹی وی دیکھنے پر مجبور ہوئے ہوں؟ یا پھر کبھی چینلز کی سرفنگ کرتے ہوئے پی ٹی وی کے کسی ڈرامے نے آپ کو ایسا متاثر کیا ہو کہ اس کی اگلی قسط کے لیے پھر سے آپ پی ٹی وی ہوم تک گئے ہوں؟
یہ وہی پی ٹی وی ہے جس کے ڈرامے اور کردار ماضی میں اپنی شہرت اور مقبولیت کے کئی نئے ریکارڈ بنا چکے ہیں۔ وہ ڈرامے جن کی وجہ سے سڑکوں پر سناٹا چھا جاتا اور جس کے اداکار آج بھی پی ٹی وی میں اپنے کیے ہوئے کام کی وجہ سے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔
ان فنکاروں کے ادا کیے ہوئے مکالمات اب تک ذہنوں میں ترو تازہ ہیں۔ یوٹیوب پر ان اداکاروں کے پرانے ڈراموں کو پسند کرنے والوں کا وسیع حلقہ ہے، جنہوں نے اس وقت یہ تمام تر ڈرامے نہیں دیکھے تھے۔ لیکن کیسا وقت آگیا ہے کہ اب پی ٹی وی کا کوئی بھی ایسا ڈراما نہیں جو مثبت کیا منفی پہلو سے ہی محفلوں میں موضوع بحث بنے۔
یہاں یہ بھی بتا دیں کہ حکومتی تفریحی چینل پی ٹی وی ہوم اور پی ٹی وی گلوبل سے مختلف ڈرامے اور پروگرام نشر ہوتے ہیں، ان میں علاقائی زبانوں کی تخلقیات بھی شامل ہیں۔
ذرا فرصت ملے تو ان چینلز کے پروگراموں اور شیڈولز کا مشاہدہ کرنے کے لیے ان کی ویب سائٹ کا رخ ضرور کیجیے گا۔
یہاں بھی آپ کو دیگر چینلز کی طرح ہر نوعیت کے پروگرامز ملیں گے۔ ان میں میوزک، سٹیج شو، مزاحیہ ڈراما سیریلز، ڈراما سوپ، مارننگ شو، مذہبی اور یہاں تک کہ بچوں کے بھی پروگرامز شامل ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا تذکرہ کسی نہ کسی حوالے سے ہوتا ہو۔
ایک عام تاثر یہ ہے کہ پی ٹی وی پر زیادہ تر وہ تخلیقات نشر ہوتی ہیں جو پروڈکشن ہاؤسز سے بڑے ٹی وی چینلز نہیں خریدتے تو وہ پی ٹی وی کو کم نرخ میں ہی فروخت کر کے اپنا کم سے کم نقصان کرتے ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ممکن ہے ان ڈراموں اور پروگراموں کا پلاٹ جاندار نہ ہو، اداکار غیر معروف ہوں لیکن ایسا بھی نہیں کیونکہ کچھ اداکار وہ بھی ہیں جن کے ڈرامے دیگر ٹی وی چینلز سے نشر ہوتے ہیں۔
مگر اس کے باوجود یہ تخلیقات ناظرین کے دلوں میں اپنی قربت کا احساس دلا نہیں پائیں۔
’قدوسی صاحب کی بیوہ‘ اور ’گھسی پٹی محبت‘ جیسے ڈرامے لکھنے والے مشہور رائٹر فصیح باری خان اس حوالے سے اہم نکتہ اٹھاتے ہیں کہ پی ٹی وی کے سرکاری ادارہ ہونے کے باوجود ڈراموں کے معیار پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، دیگر چینلز ڈراما خریدنے یا بنانے سے پہلے ہر پہلو کا مشاہدہ کرتے ہیں جیسے عکس بندی کیسی ہو، اداکار کون ہیں، کہانی کیسی ہے؟
لیکن احساس یہی ہو رہا ہے کہ ان امور پر پی ٹی وی توجہ نہیں دے رہا۔
ایک طویل عرصے تک پی ٹی وی ڈراموں اور پروگراموں کے فنکاروں کے انٹرویوز کرنے والی سینیئر صحافی شاہین رشید کہتی ہیں کہ کافی وقت ہوا پی ٹی وی کو دیکھے ہوئے، ایک دن کوشش کی تو پروگرام اور ڈرامے دیکھ کر مایوسی ہوئی۔
آج بھی آپ پی ٹی وی کے بچوں کے پروگرام دیکھیں تو وہ اب تک پرانے طرز پر ہی پیش کیے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پی ٹی وی نے اپنے پروگراموں کا انداز تک تبدیل نہیں کیا۔
جب آپ میں آگے بڑھنے کی اور جدت لانے کی جستجو نہیں رہتی تو پھر کوئی بھی آپ کےساتھ نہیں چلتا۔ پی ٹی وی کو اگر دیگر چینلز سے مقابلہ کرنا ہے تو اپنے ڈراموں کے معیار کے ساتھ ساتھ معاوضوں کا گراف بھی بلند کرنا ہوگا تاکہ اسے بہترین تخلیق کاروں کا تعاون میسر ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فصیح باری خان کا مزید کہنا ہے کہ 2006 میں اسلم اظہر اور شاہد محمود ندیم نے کوشش کی کہ دوبارہ سے پی ٹی وی اپنا مقام حاصل کرے اور اس مقصد کے لیے نئے رائٹرز اور پروڈیوسرز سے ملاقاتیں کر کے ایک لائحہ عمل بنانے کی کوشش کی لیکن پھر یہ معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا۔
ایک عام تاثر یہ ہے کہ پی ٹی وی پر زیادہ تر وہ تخلیقات نشر ہوتی ہیں جو پروڈکشن ہاؤسز سے بڑے ٹی وی چینلز نہیں خریدتے تو وہ پی ٹی وی کو کم نرخ میں ہی فروخت کر کے اپنا کم سے کم نقصان کرتے ہیں۔
فصیح باری خان کے مطابق پی ٹی وی خود جو تخلیقات تیار کرتا ہے وہ ان رائٹرز سے لکھواتا ہے جو آؤٹ ڈیٹیڈ ہو چکے ہیں۔ اسی طرح پروڈکشن ہاؤسز کا جب کوئی ڈراما نہیں خریدتا تو ان کے پاس آخری آپشن یہ ہوتا ہے کہ وہ پی ٹی وی کو اپنے پروگرام یا ڈرامے فروخت کر دیں۔
اب یہ عالم آگیا ہے کہ پی ٹی وی کا ڈراما نشر بھی ہو رہا ہے لیکن کسی کو نہیں معلوم کیا چل رہا ہے اور اس میں کون ہے؟ اس کی وجہ ان میں شامل سطحی قسم کے مسترد اداکار اور کہانیاں ہی کہی جا سکتی ہے۔
فصیح باری خان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے ایک اور ڈراما رائٹر نزہت سمن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بڑا پروڈکشن ہاؤس پی ٹی وی کے لیے کام نہیں کرتا صرف کچھ چھوٹے پروڈکشن ہاؤسز یا وہ پروڈیوسرز جن کے ڈرامے کہیں اور نہیں فروخت ہوتے تو وہ یہاں دے دیتے ہیں۔ پروڈکشن ہاؤسز کے لیے کوئی درجہ بندی نہیں ہے، نہ ہی معیار کا کوئی پیمانہ ہے۔
یاد رہے کہ ایک زمانے میں پی ٹی وی خود اپنے ڈرامے تیار کرتا تھا لیکن اب یہ مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہوچکی ہے، اسی لیے پی ٹی وی بھی نجی پروڈکشن ہاؤسز سے پروگرام اور ڈرامے خریدنے پر مجبور ہے۔
اس سلسلے میں ڈراما رائٹر اور سینیئر صحافی حنیف سحر کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی وی چاہے تو اس وقت بھی دیگر نجی چینلز مل کر بھی پی ٹی وی کے وسائل اور اس کے کام کرنے کی صلاحیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ خود پی ٹی وی کے اربابِ اختیار کو اپنا معیار بلند کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
نزہت سمن کے مطابق پی ٹی وی کے اپنے ڈراموں کا معیار نہ ہونے کی ایک وجہ ممکن ہے یہ بھی ہو کہ اس کے کہنہ مشق ہدایت کار اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اگر یہ پروڈیوسرز اپنے عروج کے دور میں جونیئرز کو ڈرامے کی باریکیاں سکھا دیتے تو نتیجہ یہ نہ ہوتا، بلکہ پی ٹی وی کے پاس ہنر مندوں کی دوسری کھیپ تیار ہو جاتی۔ یہی محسوس ہوتا ہے کہ کسی پروڈیوسر یا تکنیک کار نے اپنے سے جونیئرز کو کچھ بھی سکھانے کی کوشش نہ کی۔
نوے کی دہائی میں پی ٹی وی کو سب سے بڑی اور پہلی ضرب نجی ٹی وی چینل نیٹ ورک ٹیلی ویژن مارکیٹنگ (این ٹی ایم) نے پہنچائی۔ اس پلیٹ فارم سے پروگرامز، ڈرامے اور پاکستانی اور انگریزی فلمیں نشر ہوئیں۔ پی ٹی وی کے سٹوڈیوز سے نکل کر ڈراما اور پروگرام نیچرل لوکیشن پر ہونے لگے۔
پی ٹی وی کے کئی سینیئر پروڈیوسرز نے اسی نیٹ ورک کے ذریعے نام بدل کر کئی تخلیقات پیش کیں اور خاطر خواہ معاوضہ بھی حاصل کیا۔
حنیف سحر کہتے ہیں کہ چند افراد چاہتے تھے کہ پی ٹی وی ڈرامے مشہور نہ ہوں۔ چنانچہ ان کی اسی روش کے باعث ناظرین پی ٹی وی دیکھنا چھوڑ چکے ہیں۔
پی ٹی وی کو انفرادیت حاصل ہے کہ وہ دیگر تفریحی چینلز کے برعکس کئی شہروں میں بغیر سیٹلائٹ کے دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پی ٹی وی کے موجودہ ڈرامے اور پروگرامز شہرت سے دور ہیں۔
یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ حالیہ برسوں میں شروع ہونے والے کئی نئے ٹی وی چینلز کے ڈرامے ناظرین میں پسندیدگی کی سند حاصل کر چکے ہیں۔
اسی تناظر میں سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ پی ٹی وی یہ اعزاز کیوں نہیں پا سکا؟ اس سلسلے میں تبصرہ نگار اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پی ٹی وی، دیگر چینلز کی طرح سوشل میڈیا کا بہترین انداز میں استعمال نہیں کر رہا۔ اپنے ڈراموں کی اس انداز میں تشہیر نہیں کی جاتی جیسے دیگر ٹی وی چینلز انداز اپناتے ہیں۔
المیہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی وی کے یوٹیوب چینلز پر بھی صارفین کے ویوز کی تعداد کم ہی رہتی ہے۔ ڈراما رائٹر نزہت سمن کہتی ہیں کہ ڈراموں کی تشہیر کیسے ہو؟ اور کیوں کوئی انہیں پروموٹ کرے؟ کیوں کوئی اپنی رقم ان غیر معروف ڈراموں میں ضائع کرے؟
پی ٹی وی کو اشتہار کی ضرورت بھی نہیں چند سرکاری اداروں اور محکموں کے اشتہارات کافی ہوتے ہیں، اس لیے پی ٹی وی حکام کوشش بھی نہیں کرتے کہ دیگر نجی چینلز کی طرح اپنے ڈراموں کی غیر معمولی تشہیر کی جائے۔
سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر غور نہیں کیا جاتا۔ نزہت سمن کے مطابق ماضی میں جب پی ٹی وی کا سنہری دور تھا تو ہر سہہ ماہی میں نئے پروگرامز اور ڈراموں کے لیے صحافیوں کے لیے بریفنگ کا اہتمام کیا جاتا۔ یہ سلسلہ بھی تھم چکا ہے۔
پی ٹی وی رواں ماہ اپنی عمر کی 61 ویں بہار دیکھ رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی وی کا ماضی درخشاں تھا، مگر حال دھندلا چکا ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو کبھی معیار اور تخلیق کا استعارہ تھا، آج اپنی اصل سمت سے محروم ہے۔
ناظرین بدل چکے، زمانہ جدت سے بھرا ہے مگر پی ٹی وی اب بھی پرانے فارمولے پر عمل پیرا ہے۔ وہ پی ٹی وی ڈرامے جو ماضی میں انڈین ٹی وی پروڈیوسرز اور اداکاروں کے لیے اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے، آج ایسا ممکن نہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ جہاں پی ٹی وی نیوز اور ورلڈ کو بین الاقوامی معیار کا بنا چکے ہیں، جن کے پروگرامز میں دور حاضر کے جدید تقاضوں کا عکس ملتا ہے۔ اسی طرح پی ٹی وی سپورٹس، کھیلوں کا مستند چینل بن چکا ہے تو وفاقی وزیر کو ایک نگاہ اب پی ٹی وی ہوم کے ڈراموں اور پروگراموں پر بھی ڈال کر اسے ایسا بنانا ہوگا کہ پرانا دور پھر لوٹ آئے۔
ڈراما رائٹرز اور تبصرہ نگار متفق ہیں کہ اگر ادارہ واقعی دوبارہ اپنے سنہری دور کے سفر کا آغاز کرنا چاہتا ہے تو اسے صرف پروگرام نہیں بلکہ وژن بدلنا ہوگا۔ نئے اور باصلاحیت لکھاریوں، ہنر مند پروڈیوسرز اور جدید تشہیری حکمت عملی کے بغیر پی ٹی وی کی سکرین روشن نہیں ہوسکتی۔
سوال یہ نہیں کہ پی ٹی وی دوبارہ عروج پا سکتا ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ چاہتا بھی ہے؟
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔