یوں تو پاکستانی ڈراموں پر نقاد اور ناظرین اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر بحث کرتے نظر آتے ہیں، لیکن ’ہم‘ ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے ڈرامے ’جمع تقسیم‘ پر ہر عمر کے خواتین و حضرات تبصرے کر رہے ہیں۔
اس ڈرامے کی 17 اقساط نشر ہو چکی ہیں اور آٹھ ہفتوں میں یوٹیوب پر اس کے 100 ملین سے زیادہ ویوز ہیں۔
یہ ڈراما اس لیے مقبول ہو رہا ہے کہ لوگ اس کی کہانیوں میں اپنی کہانیاں اور اپنی داستانیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ہدایت کار علی حسن نے ڈرامے میں ضرورت سے زیادہ موسیقی کا استعمال نہیں کیا اور مشکل اور پیچیدہ لمحات کو سادہ اور آسان رکھا ہے۔
مصنفہ ثروت نذیر نے جملے سادہ اور سہل رکھے ہیں لہٰذا لوگ اس میں اپنی روز مرہ کی زندگیوں کی الجھنیں اور سلجھنیں ڈھونڈ پا رہے ہیں۔
ڈرامے میں کئی اقسام کے موضوعات ہیں جن پر ہدایت کار علی حسن اور لکھاری ثروت نظیر نے روشنی ڈالی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام سے شروع ہونے والی یہ کہانی دراصل اور کئی کہانیوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔
قیس اور لیلیٰ دو مرکزی کردار ہیں جن کے خاندان بہت مختلف ہیں۔ قیس کے خاندان کی سوچ میں عورتوں کا گھر سنبھالنا اور گھر سے باہر کام نہ کرنا، ساس سسر کے ساتھ رہنا اور جو کچھ ’ابا جی‘ نے کہہ دیا، اس کو من و عن ماننا رواج اور بنیاد ہے۔
لیلیٰ کے خاندان میں اس کی ماں بھی نوکری کرتی رہی ہے اور باپ بھی کافی حد تک ’آزاد خیال‘ معلوم ہوتا ہے۔
قیس اور لیلیٰ کی شادی کے بعد لیلیٰ جب قیس کے گھر میں رہنا شروع کرتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ دونوں کے خاندان بہت مختلف ہیں، گو لیلیٰ ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ وہ ایک بڑے خاندان میں رہے اور رشتوں کی خوبصورتیوں کو محسوس کرے، البتہ حالات کچھ ایسے ہو جاتے ہیں کہ دونوں الگ گھر میں رہنا شروع ہو جاتے ہیں اور قیس کے باقی بھائی بھی الگ گھروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
ڈرامے کی مرکزی اداکارہ ماورا حسین کا کہنا ہے کہ انہوں نے لیلیٰ کے کردار سے بہت کچھ سیکھا، گو وہ لیلیٰ کے ساتھ ہونے والے بہت سارے معاملات کی مخالف تھیں۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ لیلیٰ کے جوابات سے متفق نہیں ’مگر وہ سمجھ سکتی ہیں کہ لیلیٰ کے حالات میں رہنا کیسا ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’زیادہ تر خواتین شادی کے آغاز میں اپنی آواز کو دبا لیتی ہیں تاکہ ان کا یہ خوشگوار وقت خوشگوار ہی رہے۔‘
ڈرامے کی مصنفہ ثروت نذیر نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ انہیں ڈرامے کی اس قدر مقبولیت کی امید نہ تھی۔
’مجھے امید تھی کہ لوگ اس سے مطابقت رکھیں گے کیوں کہ یہ 90 فیصد لوگوں کی اصل زندگیوں کی کہانی ہے لیکن یہ اس قدر ہِٹ ہو گا، اس کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے بزرگ اپنی سوچ بدلیں، نئے زمانے کے تقاضوں کو سمجھیں اور نوجوان لوگ بزرگوں کا احترام کرتے ہوئے اختلاف رکھنا سیکھیں۔‘
لیلیٰ کے کردار کی یہی بات شاید ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ وہ جب اپنے ماں باپ یا قیس کے ماں باپ سے بات کرتی ہے تو اس کا لہجہ اور الفاظ بہت نرم اور تمیز دار ہوتے ہیں۔
وہ اپنی بات اور سوچ کو کہنے اور سمجھانے پر یقین رکھتی ہے مگر کسی کی دل آزاری کیے بغیر۔
اپنے انٹرویو میں ماورا نے باور کروایا کہ وہ ایسے کرداروں کی خواہش رکھتی ہیں، جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور دل نہ دکھے۔
سوشل میڈیا پر صارفین کا ماننا ہے کہ اگر ماں باپ زبردستی بچوں کو اپنے قریب رکھنا چاہیں گے تو اس سے ان کی اپنی عزتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ڈراما ’جمع تقسیم‘ ہر بدھ اور جمعرات کی رات شب آٹھ بجے ہم ٹیلی ویژن کے چینل اور یوٹیوب پر نشر کیا جاتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔