غنا علی کی پہلی شناخت تو فلموں سے ہی ہوئی تھی جب وہ ’رنگریزہ‘ اور ’مان جاؤ نا‘ کے ساتھ بڑی سکرین پر رونما ہوئی تھیں۔ اس کے بعد کرونا کی عالمی وبا نے ڈیرے ڈالے اور اس دوران ان کی دو فلمیں تیار ہوئیں، جو اب ریلیز کی منتظر ہیں۔
حال ہی میں غنا علی کو ڈراما سیریل ’نقاب‘ میں دیکھا۔ شادی کے بعد انڈسٹری میں واپسی پر یہ ان کا دوسرا ڈراما ہے، جو کافی مقبول ہو رہا ہے، جس میں ان کردار کافی ’گرے‘ ہے۔
اسی ضمن میں ہم نے غنا علی سے ان کے ڈرامے اور دو غیر ریلیز شدہ فلموں پر بات کی، جس میں انہوں نے اپنے کردار کی تیاری اور اس کی مختلف جہتوں پر گفتگو کی۔
اس کے علاوہ انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ ڈرامے صرف چھوٹی عمر کی لڑکیوں کی کہانیوں پر محیط ہو کر رہ گئے ہیں۔
پہلا سوال غنا علی کے کردار ’زارا‘ کے بارے میں تھا، جس کے حوالے سے انہوں نے بتایا: ’زارا کا کردار نہ مثبت ہے نہ ہی منفی، یہ ان دونوں کے بیچ میں ہے اور یہی اس کی خوبی ہے، لیکن شاید اسی وجہ سے اس کردار کے لیے بہت محنت کرنا پڑی کیونکہ ناظرین کو یقین دلانا تھا کہ زارا نہ اچھی ہے اور نہ ہی بری۔‘
زارا کے کردار پر شوہر پرستی کے الزام کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اس کردار کی دنیا اس کا شوہر ہی ہے، والدین نہیں ہیں، بھائی سے اس کی نہیں بنتی، اس لیے وہ شوہر کو ہی سب کچھ سمجھتی ہے اور یہی اس کے مسائل ہیں۔
ان کے مطابق زارا مظلوم نہیں ہے، وہ ایک مختلف کردار ہے، جو غلطیاں کرتا ہے، جیسے سب کرتے ہیں، اس لیے وہ ہر ایک سے لڑ جاتی ہے کیونکہ اسے ہر ایک سے ہی خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں کوئی اس سے اس کا شوہر چھین نہ لے۔
غنا علی سے ہمارا تعارف فلم ’رنگریزہ‘ اور ’مان جاؤ نا‘ کے ذریعے ہوا تھا، لیکن اس کے بعد وہ جیسے فلموں سے غائب ہی ہو گئیں۔
اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اب تو فلمیں کم ہی بن رہی ہیں، اس لیے کم کام مل رہا تھا۔
البتہ ڈراموں میں بھی کم کام کرنے کے بارے میں انہوں نے شکایت کی کہ ’پاکستانی ڈراموں میں چھوٹے قد کی لڑکیوں کو ترجیح دی جاتی ہے، جبکہ لمبے قد کی لڑکیوں کو کام مشکل سے ملتا ہے۔‘
غنا علی نے بتایا کہ وہ 31 سال کی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ مزید پانچ سال کام کر سکتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مسئلہ یہ ہے کہ لکھاری جو کہانی لکھتے ہیں وہ 20 سے 25 سال کی لڑکی کی کہانی لکھ دیتے ہیں، 30 سال کی لڑکی کی تو جیسے کہانی ہی نہیں ہوتی۔ 30 سال میں تو بھائی کی بہن یا بھابی کے کردار ملتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ چھوٹے قد کی لڑکیوں کو ترجیح دی جاتی ہے، کیوں کہ وہ اگر 35 سال کی بھی ہوجائیں تو چھوٹی ہی لگتی ہیں۔‘
غنا علی نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں یہ مسئلہ ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں چھوٹے قد سے فائدہ ہوتا ہے، اس لحاظ سے ہماری انڈسٹری بہت عجیب ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’نقاب‘ میں بھی وہ خود کو الگ محسوس کر رہی تھیں کیونکہ ماسٹر شاٹ میں وہ الگ ہی نظر آتی ہیں۔
غنا علی کی دو فلمیں آنے کو تیار تھیں، جن میں سے ایک جاپانی کنکشن کے پروڈیوسر اور ہدایت کار تنویر جمال کا انتقال ہو گیا ہے تو اب اس کا ریلیز ہونا کافی مشکل لگ رہا ہے اور خود غنا نے بھی اس بات کا اعتراف کیا۔
دوسری فلم ’گواہ رہنا‘ تحریک خلافت کے زمانے کی کہانی ہے، اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے اس میں مسائل آئے تھے اور اسی لیے یہ اب تک تعطل کا شکار ہے۔
گذشتہ دنوں غنا علی کے انسٹاگرام پر ایک سٹوری پوسٹ ہوئی کہ وہ شوبز چھوڑ رہی ہیں۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کے بھائی نے شرارت میں لگا دی تھی جبکہ وہ خود اُن دنوں اعتکاف میں تھیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے شوہر اور گھر والے انہیں اداکاری سے منع کرتے ہیں، وہ صرف اپنے شوق کی خاطر اداکاری کر رہی ہیں اور انہیں مزید چار سے پانچ سال اداکاری کی اجازت ہے۔
غنا علی نے کہا کہ وہ فلموں میں کام کرنے کو تیار ہیں لیکن اب وہ ڈانس نمبر نہیں کر سکیں گی۔