پِٹسبرگ کے ایک چھوٹے نواحی علاقے کو چھ مارچ 1974 کو ایک اچانک سانحے نے ہلا کر رکھ دیا، جب پولیس نے 23 سالہ اینیٹ توکارز کی لاش دریافت کی، جنہیں قتل کر دیا گیا تھا۔
توکارز کے گھر والےانہیں پیار سے ’سسّی‘ کہتے تھے، ان کی چھوٹی بہن کولیٹ انڈرووڈ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کو ان کی موت کی خبر ٹیلی ویژن پر رات کے خبرنامے کے دوران ملی۔ اس وقت انڈرووڈ کی آٹھویں سالگرہ میں صرف چند ہفتے باقی تھے۔
انڈرووڈ نے کہا: ’میری والدہ کو ٹی وی سے پتا چلا کہ وہ مر گئی ہے، شاید مردہ خانے میں ایک لاوارث لاش تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’میں راتوں کو بہت روتی تھی کیونکہ مجھے ان کی بہت یاد آتی تھی۔ یہ بہت افسوسناک تھا۔‘
ان کی بہن شیرون لنڈنر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ توکارز ’بہت ذہین‘ اور ’اچھے دل‘ والی تھیں۔
لنڈنر نے یاد کیا کہ توکارز کا پسندیدہ مضمون تاریخ تھا اور چونکہ دونوں بہنیں ایک ہی کمرے میں رہتی تھیں، اس لیے ایک دوسرے سے دل کی باتیں کیا کرتی تھیں۔
پولیس نے اس وقت قتل کی تفتیش کی، لیکن کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوئی۔ 51 برس تک خاندان کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ توکارز کو کس نے قتل کیا۔
اب، آخرکار انہیں کچھ سکون ملا ہے کیونکہ بیور کاؤنٹی کے چیف ڈیٹیکٹیو پیٹرک ینگ نے اس موسم گرما میں ڈی این اے تجزیے کا ایک طریقہ استعمال کرتے ہوئے ایک مشتبہ شخص کی نشاندہی کی ہے۔ بالکل ویسا ہی جیسا ڈی این اے کی مدد سے جینیاتی تجزیہ فراہم کرنے والی کمپنی 23 اینڈ می استعمال کرتی ہے۔
یہ مشتبہ شخص والٹن سمز تھا، جو کئی سال پہلے وفات پا چکا ہے لیکن پیٹرک ینگ کا کہنا ہے کہ اب اتنے شواہد موجود ہیں کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو اس پر مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔
لنڈنر نے کہا ’میں بتا نہیں سکتی کہ پولیس کے لیے میرے دل میں کتنی شکرگزاری ہے کہ انہوں نے ہار نہیں مانی اور اتنی محنت کی۔‘
ڈیٹیکٹیو ینگ کو ایک ڈی این اے نمونہ ملا، لیکن وہ مکمل نہ تھا۔
پیٹرک ینگ 1994 سے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ وہ 2016 میں مغربی پنسلوانیا کے موناکا پولیس ڈپارٹمنٹ سے ریٹائر ہوئے اور پھر بیور کاؤنٹی ڈیٹیکٹو بیورو میں شامل ہوئے۔ وہاں انہوں نے 2017 میں توکارز کا کیس دریافت کیا۔
توکارز کی لاش ہوپ ویل ٹاؤن شپ کے ایک کم گہرائی والے نالے سے ملی تھی، جو پِٹسبرگ سے تقریباً 25 میل شمال مغرب میں واقع ہے۔ پیٹرک ینگ کے مطابق، انہیں ’زبردستی ڈبو کر‘ مارا گیا تھا۔
شروع میں، ینگ کے پاس صرف مٹی کے نمونے جیسے شواہد تھے، جو بہت کم مددگار ثابت ہوئے۔ 1970 کی دہائی میں ڈی این اے تجزیہ استعمال نہیں ہوتا تھا، اور ڈی این اے شواہد کا پہلا عدالتی مقدمہ توکارز کے قتل کے 12 سال بعد ہوا۔
مگر شواہد محفوظ حالت میں موجود تھے اور پیٹرک ینگ نے توکارز کے قتل کے وقت پہنے ہوئے چیتے کے دھبوں والے کوٹ سے ڈی این اے حاصل کر لیا۔ ینگ نے اس نمونے کو ایف بی آئی کے قومی ڈی این اے ڈیٹابیس ’کوڈس‘ میں چلانے کا ارادہ کیا۔
تاہم، نمونے کے ساتھ ایک مسئلہ تھا: تجزیہ کار صرف آٹھ جینیاتی مقامات کی شناخت کر سکے، جو ڈی این اے کی مخصوص جگہیں تھیں۔
ینگ نے وضاحت کی اس کا مطلب یہ تھا کہ ڈی این اے کا نمونہ کوڈ کے لیے ضروری معیار سے صرف ایک مقام کم تھا۔
نتیجے کے طور پر، ینگ پورے ڈیٹا بیس کی تلاش نہیں کر سکے اور صرف ان افراد کے ڈی این اے نمونوں سے موازنہ کر سکے جو ان کے پاس موجود تھے۔
اہم مشتبہ شخص شک کے دائرے سے باہر ہو گیا
اس وقت پولیس کو یہ یقین تھا کہ سب سے اہم مشتبہ شخص کارنیلیئس میک کوئے نام کا ایک آدمی تھا، جنہوں نے پولیس کو بتایا کہ انہوں نے آخری بار توکارز کو اُس رات ایک مرد کے ساتھ بار سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا جب وہ قتل ہوئی۔ بعد میں ینگ نے یہ محسوس کیا کہ وہ مرد شاید سمز ہو سکتا تھا۔ ینگ نے کہا کہ میک کوئے ’واقعی مشتبہ لگتا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس کبھی بھی اتنے شواہد جمع نہیں کر سکی کہ میک کوئے پر الزامات عائد کیے جا سکیں، اور جب ینگ نے کیس سنبھالا، وہ 10 سال پہلے وفات پا چکا تھا۔
اس سے بھی ینگ نہیں رکے، جنہوں نے میک کوئے کے رشتہ داروں کا پتا لگایا اور ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا تاکہ اس کا چیتے کے دھبوں والے کوٹ سے ملنے والے نامعلوم ڈی این اے سے موازنہ کیا جا سکے۔ لیکن نمونے میچ نہیں ہوئے، جس کا مطلب تھا کہ میک کوئے تقریباً یقینی طور پر وہ شخص نہیں تھا جس نے توکارز کو قتل کیا تھا۔
ینگ نے یاد کرتے ہوئے کہا: ’ تفتیش کے آخر میں میرے پاس کوئی اور مشتبہ شخص نہیں تھا اور میں وقت الجھا ہوا تھا کہ اب مزید کہاں سے شواہد حاصل کیے جائیں۔‘
ڈیٹیکٹیو ینگ نے جینیات کی طرف رخ کیا اس مرحلے پر، ینگ کو ایک رکاوٹ کا سامنا تھا۔
تب انہوں نے ایک نیا طریقہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ براہِ راست مماثلت تلاش کرنے کی بجائے، ینگ نے جینیات کا استعمال کرتے ہوئے اس شخص کے رشتہ داروں کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا جس کا ڈی این اے توکارز کے کوٹ پر موجود تھا۔
کسی شخص کی جینیات کے بارے میں جاننے کے لیے تفتیش کار ڈی این اے کے ایک حصے کو دیکھتے ہیں جسے ’سنگل نیوکلیوٹائڈ پالی مورفزم‘ کہا جاتا ہے۔
مشہور جینیاتی سروس دینے والی کمپنی جیسے 23 اینڈ می اور آنسسٹری بھی سنگل نیوکلیوٹائڈ پالی مورفزم دریافت کرتی ہیں۔
اس تجزیے نے ینگ کو سیمز کے کئی رشتہ داروں تک پہنچا دیا، جو ایک ایسا شخص تھا جس کا نام وہ پہلے ہی توکارز کے کیس فائل میں دیکھ چکے تھے۔
ینگ نے وضاحت کی کہ سیمز توکارز کا کبھی بوائے فرینڈ تھا۔ سیمز نے 1974 میں پولیس کو بتایا تھا کہ ان کی توکارز سے دو مہینے سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اور وہ اس وقت ویسٹ ورجینیا میں تھے جب توکارز کا قتل ہوا۔
اب، ینگ کو یہ معلوم کرنا تھا کہ توکارز کے کوٹ پر پایا گیا ڈی این اے سمز کا تھا یا نہیں۔ وہ 2015 میں فوت ہو چکے تھے، لیکن ینگ نے کہا کہ وہ سمز کے ایک بچے کا ڈی این اے پروفائل حاصل کرنے کے لیے عدالت سے حکم نامہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
پھر ینگ نے نامعلوم نمونہ اور سمز کے بچے کا ڈی این اے ایک پیٹرنٹی لیب میں بھیجا۔ وہاں ماہرین یہ پتا لگا سکتے تھے کہ آیا سمز کا بچہ اس شخص سے رشتہ رکھتا ہے جس کا ڈی این اے نمونہ موجود تھا۔ اگر نمونے میل کھاتے، تو اس کا مطلب ہوتا کہ کوٹ پر پایا گیا ڈی این اے غالباً سمز کا تھا۔
پدری تجزیے کی مدد سے، ینگ کو آخرکار آٹھ سال بعد جواب ملا۔ سمز کا ڈی این اے 99.97 فیصد میل کھاتا تھا۔
ینگ نے کہا: ’تمام محنت اور جدوجہد کے بعد، آخرکار جو نتیجہ آیا اس سے خاندان کو سکون مل گیا۔‘
انڈرووڈ کہتی ہیں کہ وہ شکر گزار ہیں کہ ینگ نے کیس کی پرواہ کی اور ان کے خاندان کو سکون دیا۔
انڈرووڈ نے کہا: ’مجھے بہت خوشی ہے کہ انہوں نے پتا لگا لیا۔ یہ اس بات کی اہمیت کو بڑھاتا ہے کہ وہ ایک انسان تھیں، ان کی اپنی زندگی تھی، اور ان کی صلاحیتیں جلدی ختم ہو گئیں۔‘
© The Independent