’ہمارے نام پر قتل عام بند کرو‘: اسرائیلی مظاہرین کا نتن یاہو پر تنقید

ایسے میں جب نتن یاہو غزہ میں فوجی کارروائی کے توسیعی منصوبے سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر رہے ہیں، قیدیوں کے اہل خانہ نے بتایا کہ ان کی حکومت یہ معاملہ غلط طریقے سے چلا رہی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو 10 اگست، 2025 کو یروشلم میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں (اے ایف پی)

’اسرائیلی امن چاہتے ہیں۔ اسرائیلی غزہ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ یہ سب ہمارے نام پر ہو رہا ہے، حکومتی فیصلے عوام کی خواہشات کی نمائندگی نہیں کرتے اور اسرائیل کو روکا جانا چاہیے۔‘

یہ ہیں یوتم کوہن کی مایوس کن اپیلیں جن کے چھوٹے بھائی نمرود کو لازمی فوجی خدمات کے دوران سات اکتوبر کے حملے کے دوران حماس کے جنگجو قیدی بنا کر غزہ لے گئے تھے۔

یہ واقعہ تقریباً دو سال پہلے پیش آیا تھا۔ رواں اختتام ہفتہ یوتم نے دسیوں ہزار دیگر افراد کے ساتھ تل ابیب میں اسرائیلی فوج کے ہیڈ کوارٹر کے باہر مارچ میں شرکت کی۔

وہ اپنے پیاروں کی تصاویر اور بینرز اٹھائے عالمی رہنماؤں سے مداخلت کی اپیل کر رہے تھے۔

انہوں نے بن یامین نتن یاہو کے اس متنازع منصوبے کے خلاف بھی احتجاج کیا جس کے تحت وہ 22 ماہ سے جاری تباہ کن بمباری کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔

نتن یاہو نے اتوار کو پریس کانفرنس میں اس منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ ادھورا کام مکمل کریں گے اور حماس کو ختم کریں گے۔‘

بڑے پیمانے پر ہونے والے اس احتجاج میں بعض خاندانوں نے فوجیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ لڑائی کے اس پھیلاؤ میں حصہ لینے سے انکار کر دیں۔
 
انہوں نے اپوزیشن سے عام ہڑتال کی اپیل کی۔ یہ احتجاج ملک بھر میں جاری ان ریلیوں کے تسلسل کا حصہ تھا جن میں اسرائیلی عوام حکومت سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یوتم نے صاف الفاظ میں کہا ’اسرائیل کو روکا جانا چاہیے۔ اسرائیلی حکومت کو روکا جانا چاہیے۔ حماس پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ کوئی معاہدہ ہو سکے لیکن فی الحال اصل مسئلہ اسرائیلی حکومت ہے۔‘

پچھلے ہفتے اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے جنگ کے دائرہ کار کو بڑھانے کا فیصلہ منظور کیا حالانکہ اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر اور کئی سابقہ سکیورٹی و انٹیلی جنس افسران نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔

اس منصوبے کے تحت اسرائیلی افواج، جو اقوام متحدہ کے مطابق پہلے ہی غزہ کی پٹی کے 85 فیصد سے زائد حصے پر قابض ہیں، اس چھوٹے سے علاقے کے آخری حصوں میں بھی داخل ہوں گی، ابتدا غزہ شہر سے ہوگی تاکہ پٹی کا مکمل ’سکیورٹی کنٹرول‘ حاصل کیا جا سکے۔

بہت سے اسرائیلیوں کو خدشہ ہے کہ یہ اقدام فوج کو ایک مہنگی، طویل اور ناقابل فتح جنگ میں الجھا دے گا اور نمرود جیسے باقی ماندہ 20 قیدیوں کے لیے ’موت کا پروانہ‘ ثابت ہوگا جن کے زندہ ہونے کا ابھی تک یقین ہے۔

یہ قدم ان 30 کے قریب مارے گئے قیدیوں کی لاشوں کو واپس لانے کی امیدیں بھی ختم کر سکتا ہے جن کی باقیات اب بھی جنگجوؤں کے قبضے میں ہیں۔

کچھ اہل خانہ نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ کو بتایا کہ انہیں فلسطینی شہریوں پر پڑنے والے انسانی اثرات پر بھی گہری تشویش ہے کیونکہ مقامی حکام کے مطابق بمباری مارے جانے والوں کی تعداد 61 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور لڑائی اور اسرائیلی محاصرے کے باعث قحط کی سی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔

یوتم پرعزم لہجے میں کہتے ہیں ’ایک اسرائیلی کے طور پر، سب سے پہلے ہم اپنی حکومت کی نمائندگی نہیں کرتے۔

’اسرائیلی امن چاہتے ہیں۔ اسرائیلی غزہ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی اس وقت غزہ میں ہونے والے واقعات کی حمایت نہیں کرتے۔‘

ان کے بقول ’یہ ہماری حکومت ہے، ہمارے نام نہاد منتخب نمائندے ہیں جو اس وقت ہمارے نام پر، اس طاقت کو جو ہم نے انہیں جمہوری طور پر دی، مظالم ڈھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اسرائیلی فوجیوں کو قتل کرنے کے لیے، اسرائیلی قیدیوں کو قتل کرنے کے لیے، فلسطینی شہریوں کو قتل کرنے کے لیے۔ یہ سب ہمارے نام پر ہو رہا ہے۔‘

یہی مایوسی ایک اور اسرائیلی شہری شی ڈک مین کی آواز میں بھی سنائی دی، جو کہتی ہیں کہ ان کے خاندان نے جنگ بندی کے خاتمے اور اسرائیل کے مذاکرات کی بجائے فوجی دباؤ کو ترجیح دینے کے مہلک نتائج بھگتے ہیں۔

نومبر 2023 میں شی کی کزن 41 سالہ پیشہ ور ڈاکٹر کارمل گیٹ کا نام ان قیدیوں میں اگلی فہرست میں تھا جنہیں رہا کیا جانا تھا لیکن جس دن انہیں رہا ہونا تھا اسی دن فائر بندی ختم ہو گئی۔

بعد میں اگست 2024 میں رفح میں اسرائیلی فوج کے داخلے کے دوران حماس کے جنگجوؤں نے ایک سرنگ میں انہیں اور مزید پانچ افراد کو گولی مار دی تھی۔

خاندان کا کہنا ہے کہ فوجیوں کے پہنچنے سے صرف 48 گھنٹے پہلے تک وہ زندہ تھیں۔

شی آنسوؤں کے ساتھ کہتی ہیں ’ایک سال پہلے آج کے دن میری کزن زندہ تھی، میں پرامید بھی تھی اور خوف زدہ بھی، بالکل انہی خاندانوں کی طرح جو آپ کو آج یہاں نظر آ رہے ہیں۔

’اسرائیلی حکومت سے میری فریاد ہے کہ ابھی ایسا معاہدہ کریں جو تمام 50 قیدیوں کو واپس لائے۔ یہی اسرائیلی عوام چاہتے ہیں، یہی ہماری خواہش ہے۔‘

ان کے بقول ’اور پوری دنیا سے بھی ہمیں آپ کی مدد چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تکلیف ختم ہو۔ کوئی بھوکا نہ مرے، کوئی تکلیف نہ اٹھائے، نہ کوئی اسرائیلی قیدی اور نہ فلسطینی۔

’ہم سب امن اور سلامتی سے جینا چاہتے ہیں۔ ہمیں قیدیوں کو واپس لانا ہے۔ ہمیں اس جنگ کو ختم کرنا ہے۔‘
 
اسرائیل نے 2023 میں حماس کے مہلک حملوں کے جواب میں غزہ پر بے مثال بمباری شروع کی جن میں جنگجوؤں نے 251 افراد کو قیدی بنا لیا اور ایک ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کر دیا۔

اس کے بعد سے اسرائیل کی بمباری، حماس کے ساتھ جنگ اور محاصرے میں دسیوں ہزاروں فلسطینی مارے گئے، 90 فیصد سے زائد گھروں کو تباہ کر دیا اور 25 میل طویل پٹی کو بھوک و افلاس میں دھکیل دیا۔ 

اب تک دی انڈپینڈنٹ کو مہیا کی گئی معلومات کے مطابق 148 قیدی، جن میں سے آٹھ مردہ، تبادلے یا دیگر معاہدوں کے تحت رہا ہوئے ہیں جبکہ فوج نے 49 لاشیں واپس لائی ہیں۔

صرف آٹھ افراد کو سکیورٹی فورسز نے زندہ بچایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قیدیوں کے خاندان فوجی کارروائی کو مؤثر نہیں سمجھتے۔

باقی 50 میں سے اسرائیل کا خیال ہے کہ 27 قیدی مر چکے ہیں اور نتن یاہو نے کہا ہے کہ کئی دیگر کے بارے میں بھی ’شک‘ ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

اسرائیل کے تازہ فوجی اقدامات کے منصوبے پر قومی و عالمی سطح پر غم و غصہ سامنے آیا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے اسرائیلی اعلان کے چند گھنٹے بعد کہا کہ اس سے ’مزید خونریزی ہی ہوگی۔‘

برطانیہ نے آسٹریا، اٹلی، سعودی عرب اور جنگ بندی کے ثالث مصر و قطر سمیت درجنوں ممالک کے ساتھ مل کر اس فیصلے کے خلاف بیان دیا۔ حتیٰ کہ جرمنی، جو جنگ کے دوران اسرائیل کا مضبوط حامی رہا، نے اعلان کیا کہ اب وہ غزہ میں استعمال ہونے والے فوجی سازوسامان کی اسرائیل کو برآمدات کی اجازت نہیں دے گا۔

اسرائیل کے اندر، طویل جنگ پر غصہ ان لوگوں سے بھی آگے بڑھ چکا ہے جو براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔

ریزرو فوجیوں کو بار بار بلائے جانے، فوجی ہلاکتوں کی بلند شرح اور قیدیوں کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پولز کے مطابق تین چوتھائی اسرائیلی عوام فوری جنگ بندی اور تمام قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے حامی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی عالمی ساکھ کے بارے میں بھی خدشات بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر غزہ میں محاصرے کی وجہ سے پیدا ہونے والے قحط پر بڑھتی ہوئی مذمت کے بعد جسے اسرائیل رد کرتا ہے اور الزام حماس پر ڈالتا ہے۔

کچھ قیدیوں کے اہل خانہ کو ڈر ہے کہ اسرائیل ایک تنہا ریاست بن رہا ہے۔

روبی چن، جن کا ٹینک بریگیڈ میں خدمات انجام دینے والا بیٹا ِاتی بھی سات اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کی لاش غزہ لے جائی گئی۔

وہ کہتے ہیں کہ نتن یاہو نے ’غلط اندازہ لگایا‘ ہے اور ’قیدیوں کی واپسی پر حماس کے خاتمے کو ترجیح دی ہے‘، جو عوام کی خواہشات کے برعکس ہے۔

ان کے بقول ’میرا خیال ہے کہ یہ انسانی بحران، چاہے وہ قیدیوں کے لیے ہو یا غزہ کے عوام کے لیے، اب بہت طویل ہو چکا ہے۔

’اگر وزیرِاعظم غلطی کر رہے ہیں تو بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت ہے۔ اور یہ بدقسمتی ہے کہ امریکہ بطور ثالث دونوں فریقوں کو ایک ساتھ بٹھا کر نہیں کہہ رہا کہ ’بس اب بہت ہو گیا۔ ہم خود کو قربانی کا بکرا محسوس کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اتوار کو نتن یاہو نے کہا کہ ان کے ذہن میں غزہ کے لیے ’انتہائی مختصر ٹائم ٹیبل‘ ہے مگر انہوں نے اس منصوبے کی تفصیل نہیں بتائی اور اصرار کیا کہ فوجی قبضہ ہی جنگ ختم کرنے کا سب سے تیز راستہ ہے۔

اسرائیل میں ہونے والے احتجاج میں براہ راست ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیلیں کی گئیں کہ وہ آگے بڑھ کر معاہدہ کرائیں۔

امریکی خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف نے ہفتے کو مبینہ طور پر سپین میں قطری وزیرِاعظم عبدالرحمن الثانی سے ملاقات کی تاکہ غزہ کی جنگ کے خاتمے اور باقی تمام قیدیوں و قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کی جا سکے غالباً اسرائیل کی فوجی کارروائی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بھی۔

اطلاعات کے مطابق امریکہ، قطر اور مصر کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے سرگرم کوششیں جاری ہیں مگر بہت سے لوگ ڈرتے ہیں کہ نتن یاہو کی نئی تجویز ان کوششوں کو ناکام بنا دے گی۔

اسرائیل کے اندر دباؤ بڑھ رہا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب جنگجو گروپ نے پچھلے ہفتے سرنگوں میں دو کمزور اسرائیلی قیدیوں کی نئی ویڈیوز جاری کیں، جس کے بعد اسرائیل نے الزام لگایا کہ حماس ان قیدیوں کو جان بوجھ کر بھوکا رکھ رہا ہے۔

ایک ویڈیو میں ایویاتار ڈیوڈ، جنہیں نووا میوزک فیسٹیول سے اغوا کیا گیا تھا، کو اس کے خاندان نے ’زندہ ڈھانچہ‘ قرار دیا کیونکہ وہ انتہائی کمزور ہو چکا تھا۔

وہ اپنی ہی قبر کھودتا ہوا نظر آتا ہے اور ویڈیو میں بتاتا ہے کہ اسے کئی دن سے کھانا نہیں ملا۔

ان کی کزن 28 سالہ نعما کہتی ہیں کہ ’ہم کھا نہیں سکتے، سو نہیں سکتے، سانس بھی نہیں لے پاتے یہ جانتے ہوئے کہ ایویاتار کس تکلیف سے گزر رہا ہے۔‘

اسرائیلی وزیرِ دفاع کے دفتر کے باہر کھڑی وہ ’مدد کے لیے پکار‘ رہی تھیں اور اسرائیل سے اپیل کر رہی تھیں کہ ’اپنے شہریوں کا دفاع کریں۔ یہ بطور حکمران آپ کی پہلی ذمہ داری ہے اور اگر وہ وہاں مر گئے تو قیدیوں کا خون آپ کے ہاتھوں پر ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’دنیا کے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ کھڑے ہوں اور حماس کے خلاف آواز بلند کریں۔‘

دو بچوں کی ماں لشے میرین، جن کے 48 سالہ شوہر عمری کِبُتس ناحل اوز سے اغوا ہوئے، کہتی ہیں: ’یہ صرف ایک فوجی فیصلہ نہیں ہے۔

’یہ ان لوگوں کے لیے موت کا پروانہ ہے جن سے ہم سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘

لشے کو جنگجوؤں نے ان کی دو بیٹیوں کے ساتھ مختصر عرصے کے لیے قید رکھا تھا، جن میں سے سب سے چھوٹی اس وقت صرف چھ ماہ کی تھی۔

اب وہ دو سال سے زائد عمر کی ہے اور اپنے والد کو یاد بھی نہیں کرتی۔ لشے دکھ بھری آواز میں کہتی ہیں کہ نتن یاہو کا فیصلہ ’واقعی ان سب کو مار سکتا ہے، ہمیں اسرائیل، حماس، قطر، سب پر دباؤ ڈالنا چاہیے، اب وقت ختم ہو چکا ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا