اسرائیلی حملے میں الجزیرہ کے پانچ صحافی قتل

یہ حملہ غزہ میں جاری 22 ماہ کی جنگ میں صحافیوں کو نشانہ بنانے کے تازہ واقعات میں سے ایک ہے جہاں اس تنازع کے دوران تقریباً 200 میڈیا کارکن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

قطر کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے الجزیرہ نے کہا ہے کہ اس کے دو نامہ نگار، جن میں ایک معروف صحافی اور تین ویڈیو جرنلسٹس شامل ہیں، اتوار کو غزہ شہر میں اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔

یہ حملہ غزہ میں جاری 22 ماہ کی جنگ میں صحافیوں کو نشانہ بنانے کے تازہ واقعات میں سے ایک ہے۔ میڈیا کی عالمی تنظیموں کے مطابق اس تنازع کے دوران تقریباً 200 میڈیا کارکن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

نشریاتی ادارے نے پیر کی صبح کہا: ’الجزیرہ کے صحافی انس الشریف چار ساتھیوں کے ہمراہ  اس وقت ایک ٹارگٹڈ اسرائیلی حملے میں مارے گئے جب غزہ شہر میں صحافیوں کے لیے قائم ایک خیمہ نشانہ بنا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ 28 سالہ الشریف اس وقت مارے گئے جب ہسپتال کے مرکزی گیٹ کے باہر صحافیوں کے خیمے کو نشانہ بنایا گیا۔ وہ الجزیرہ عربی کے معروف نامہ نگار تھے اور شمالی غزہ سے وسیع پیمانے پر رپورٹنگ کرتے تھے۔

چینل نے بتایا کہ اس حملے میں مارے جانے والے دیگر عملے میں محمد قریقیہ، اور کیمرہ آپریٹر ابراہیم ظاہر، محمد نوفل اور مؤمن علویہ شامل ہیں۔

اسرائیلی فوج نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس نے الجزیرہ کے انس الشریف کو نشانہ بنایا جو بقول ان کے ’صحافی کے روپ میں دہشت گرد‘ تھا۔

ٹیلیگرام پر جاری بیان میں اسرائیل نے کہا: ’کچھ دیر پہلے غزہ شہر میں آئی ڈی ایف نے دہشت گرد انس الشریف کو نشانہ بنایا جو الجزیرہ نیٹ ورک کے صحافی کے طور پر پیش آ رہا تھا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’انس الشریف حماس کے دہشت گرد سیل کا سربراہ تھا اور اسرائیلی شہریوں اور آئی ڈی ایف دستوں پر راکٹ حملے کرنے کا ذمہ دار تھا۔‘

الشریف غزہ میں زمینی حالات پر روزانہ رپورٹنگ کرنے والے الجزیرہ کے سب سے پہچانے جانے والے چہروں میں شامل تھے۔

اتوار کو وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی پریس کانفرنس کے بعد الشریف نے ایکس پر پیغامات پوسٹ کیے جن میں غزہ شہر پر ’شدید اور مرکوز اسرائیلی بمباری‘ کا ذکر تھا۔

ان کے آخری پیغامات میں سے ایک میں ایک مختصر ویڈیو بھی شامل تھی جس میں غزہ شہر پر اسرائیلی حملے دکھائے گئے تھے۔

جولائی میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے ان کی حفاظت کا مطالبہ کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ اسرائیلی فوج کے عربی ترجمان انہیں حماس کا دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف ’آن لائن حملے‘ بڑھا رہے ہیں۔

حملے کے بعد سی پی جے نے کہا کہ وہ صحافیوں کی اموات پر ’شدید صدمے‘ میں ہے۔

سی پی جے کی ریجنل ڈائریکٹر سارہ قضاح نے کہا: ’اسرائیل کا بغیر معتبر ثبوت کے صحافیوں کو جنگجو قرار دینے کا رجحان اس کے ارادوں اور صحافتی آزادی کے احترام پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔‘

ان کے بقول: ’صحافی شہری ہوتے ہیں اور انہیں کبھی بھی نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ ان اموات کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلسطینی صحافیوں کی یونین نے اسے ’قتل کی خونی واردات‘ قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔

اسرائیل اور الجزیرہ کے تعلقات برسوں سے کشیدہ ہیں۔ اسرائیلی حکام نے اس چینل پر ملک میں پابندی لگائی ہوئی ہے اور غزہ کی حالیہ جنگ کے بعد اس کے دفاتر پر چھاپے مارے ہیں۔

قطر کئی برسوں سے حماس کی سیاسی قیادت کے دفتر کی میزبانی کرتا آیا ہے اور اسرائیل اور اس گروپ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی ایک اہم جگہ رہا ہے۔

غزہ کے محاصرے کے باعث دنیا بھر کے کئی میڈیا ادارے، بشمول اے ایف پی، اس جنگ کی تصویری، ویڈیو اور تحریری کوریج کے لیے فلسطینی صحافیوں پر انحصار کرتے ہیں۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے جولائی کے آغاز میں کہا تھا کہ جنگ کے آغاز سے اب تک غزہ میں 200 سے زائد صحافی مارے جا چکے ہیں، جن میں کئی الجزیرہ کے نامہ نگار بھی شامل ہیں۔

غزہ میں 20 لاکھ سے زائد فلسطینی شہریوں کی حالت زار پر عالمی تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں اور حقوق کی تنظیمیں خبردار کر رہی ہیں کہ اس علاقے میں قحط پیدا ہو رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا