بونیر میں بارشوں کی تباہ کاری کی 3 وجوہات

پیر بابا میں تباہی کی دو وجوہات قدرتی ہیں جن پر انسان کا اختیار نہیں، لیکن ایک وجہ انسانی غفلت بھی ہے۔

برسات ہر سال ہوتی ہے مگر اس سال خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے علاقے پیر بابا میں بارشوں نے جو تباہی پھیلائی اس کی ماضیِ قریب میں مثال نہیں ملتی۔ ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟

اس کی بنیادی وجہیں تین ہیں، جن میں سے دو قدرتی اور ایک انسانوں کی اپنی پیدا کردہ ہے۔

جمعہ 15 اگست کی صبح مردان کے قریب کاٹلنگ کے علاقے میں صبح تین بجے کے قریب ایک موسمی سسٹم بننا شروع ہوا، جو تیزی سے سفر کرتا ہوا مشرق کی طرف روانہ ہوا اور تقریباً آٹھ بجے صبح بونیر کے پیر بابا کے علاقے میں پہنچ گیا۔

پیر بابا کے آس پاس بلند ڈھلوانی پہاڑ ہیں جہاں کچی مٹی ہے۔ ان پہاڑوں نے دو طرح سے تباہی کو آواز دی۔

سب سے پہلے تو اس نے کلاؤڈ برسٹ کی راہ ہموار کی۔ کلاؤڈ برسٹ ایسے پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے جہاں ڈھلوانیں گرم ہوا کو تیزی سے بلندی پر لے جانے میں مدد دیتی ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہاں 150 ملی میٹر فی گھنٹہ کے حساب سے بارش ہوئی جو کلاؤڈ برسٹ کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔

کلاؤڈ برسٹ کی تعریف یہ ہے کہ اس دوران ایک گھنٹے میں 100 ملی میٹر یا اس سے زیادہ بارش ہو۔ 150 ملی میٹر بارش ایک گھنٹے میں شدید کلاؤڈ برسٹ کی نشان دہی کرتی ہے۔

یاد رہے اس علاقے میں کوئی موسمی سٹیشن نہیں جو بارش کی درست مقدار ناپ سکے، اس لیے محض تخمینہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا کام ان ڈھلوانوں نے یہ کیا کہ بلندی سے برساتی ریلا بہتا ہوا نیچے آیا تو اس کی رفتار اور شدت کسی آبشار کی مانند تھی۔

اس شدت اور رفتار کی وجہ سے یہ ریلا بھاری بھرکم چٹانوں کو تنکے کی طرح بہاتا ہوا آبادی کی طرف لے آیا۔

نیچے بشونی اور بٹئی کے گاؤں تھے جہاں لوگوں نے نالے کے عین اوپر مکان بنا رکھے تھے جو برق رفتار پانی، چٹانوں اور گارے کے تھپیڑوں کی زد میں آ گئے۔  

مقامی لوگوں کے مطابق اس نالے میں زیادہ پانی نہیں آتا، اس لیے لوگوں نے بےخوف ہو کر عین کنارے یا بعض صورتوں میں نالے کے پانی کے اندر تجاوزات کر رکھی تھیں۔

جب ٹنوں وزنی چٹانیں لڑھکتی ہوئی آئیں تو یہ تعمیرات ان کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہاں سیلاب اور مکان گرنے سے کم از کم 217 اموات ہوئی ہیں۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس علاقے کا نقشہ ہی بدل گیا اور اس وقت محلے کے محلے چٹانوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔

یوں پیربابا کی تباہی وہاں کے مخصوص جغرافیائی حالات، کمزور انفراسٹرکچر اور تعمیراتی قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تپش کی وجہ سے موسموں کی شدت میں بےتحاشا اضافہ ہو رہا ہے اور اس دوران گرمی اور بارشوں دنوں کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔

مستقبل میں ایسی قدرتی آفات کی شدت سے بچاؤ کے لیے بہتر پلاننگ کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات