حنا طارق پاکستان کی ڈراما انڈسٹری کا نسبتاً نیا مگر مقبول چہرہ ہیں۔ رواں برس اب تک ان کے تین ڈرامے آ چکے ہیں، جن میں انہوں نے پہلی مرتبہ مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
’بھرم‘، ’نقاب‘ اور گرین ٹی وی کا ’نہ تم جانو نہ ہم‘ جو اس وقت سے چل رہا ہے۔
حنا طارق سے ہماری ملاقات ’نہ تم جانو نہ ہم‘ کے سیٹ پر ہوئی اور یہیں ہم نے ان کا آپ کے لیے خصوصی انٹرویو کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں انٹرویوز کا کوئی خاص شوق نہیں ہے۔
حنا طارق کا تعلق لاہور سے ہے، اور وہ کراچی اپنے کام کے سلسلے میں منتقل ہوئی ہیں۔ اسی لیے وہ سمجھتی ہیں کہ شہر منتقلی ایک مشکل کام ہے کیوں کہ آپ اپنے گھر والوں سے دور ہوجاتے ہیں۔
لیکن انہیں کراچی کے کھانے کافی پسند آئے ہیں جن میں مندی اور نہاری شامل ہیں، البتہ بریانی انہیں صرف اپنے گھر کی ہی پسند ہے۔ ان کے بقول بریانی میں آلو کا کوئی کام نہیں ہے۔
رواں برس کی کامیابیوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ سال واقعی ان کے فنی سفر میں ایک سنگ میل ثابت ہوا، جس میں ان کے لگا تار تین ڈرامے مقبول ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ مرکزی کردار بھی انہیں اسی سال سے ملنا شروع ہوئے اور ابتدا بہت اچھی ہی ہوئی ہے۔
تینوں ڈراموں کے کرداروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بھرم کی سجل، نقاب کی ایمان اور نہ تم جانو نہ ہم کی خوشی میں کافی فرق ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ تینوں کردار خودمختار خواتین کے ہیں۔
حنا کا کہنا تھا کہ نہ تم جانو نہ ہم میں خوشی کا اپنی شادی کے حق کے لیے آگے بڑھنا اہم ہے۔ اگرچہ یہ خاندانوں کے لیے بہت مسئلہ ہوتا ہے، لیکن خوشی کو جو ٹھیک لگا اس نے کیا۔ علی کا کردار لالچی نہیں ہے تو سچ میں خوشی سے پیار کرتا ہے، بلکہ خوشی کو علی سے پیار ہوتا ہے جب وہ اس کی جان بچاتا ہے۔
حنا کا خیال ہے کہ اگر شوہر بیوی کے ساتھ کھڑا رہے تو بہت سے مسائل نہیں ہوتے ہیں۔ ’بس ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ہر ڈرامے میں دلہن کیوں بنتی ہیں؟ اتنا شوق کیوں ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں تو بالکل بھی شوق نہیں ہے، مگر یہ کہانی کا حصہ ہوتا ہے، اس لیے ہیروئین کو تو دلہن بننا پڑتا ہے۔ ’اگرچہ میں چاہتی ہوں کہ کوئی ایسی کہانی ہو جو بیچ سے شروع ہو جس میں دلہن نہ بننا پڑے کیونکہ سوچنا پڑتا ہے کہ اب کیا پہنا جائے، لیکن ایسی کہانی ہوتی ہی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈراما انڈسٹری میں نئے آںے والوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے، خود ان کے ساتھ ہر ایک نے بہت اچھا سلوک کیا اور انہیں کسی بھی جانب سے مسائل درپیش نہیں آئے۔‘
حنا طارق نے بتایا کہ ’انہیں نیوز اینکر بننے کا بہت شوق تھا۔ ان کی والدہ کو بہت شوق تھا کہ ان کی بیٹی اینکر بنے۔ مختصر یہ کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ کیمرے کے سامنے کام کریں، نا کہ کیمرے کے پیچھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ انہیں اداکاری اور وہ بھی ڈرامے میں اداکاری کا شوق ہے۔ وہ فلم کی جانب نہیں جانا چاہتی ہیں۔‘
ایک ہی اداکار کے ایک ہی وقت میں مختلف چینلز پر کئی ڈرامے چلنے کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ انہیں تو بہت مشکلات پیش آئی تھیں، کیونکہ دیکھنے والے ایک ساتھ تین ڈراموں میں انہیں دیکھ کر شاید ہضم نہیں کر پائے تھے۔
حنا کی چیک لسٹ میں صبا قمر پہلے نمبر پر ہیں، جبکہ مردوں میں بلاول عباس وہاج علی اور فواد خان شامل ہیں، جن کے ساتھ وہ کام کرنا چاہتی ہیں۔
پاکستانی ڈراموں کہانی کی یکسانیت کے بارے میں ان کی رائے مختلف ہے، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے تین ڈرامے کیے وہ مختلف ہی تھے، اگرچہ کہیں کہیں کچھ کہانیاں ملتی جلتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ سیریل کلر کا کردار کرنا چاہتی ہیں، جس کا انہیں بہت شوق ہے۔
مثبت و منفی کردار کے ضمن میں بھی حنا کی رائے کافی مختلف ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ مثبت کردار زیادہ مشکل ہوتے ہیں کیونکہ مارجن بہت ہی کم ہوتا ہے اور اس رونے یا دل آزاری میں لوگوں کو یقین دلانا ہوتا ہے۔
’منفی کردار مشکل ہوتے ہیں مگر کرنے کو بہت کچھ ہوتا ہے، مثبت میں تو بہت کم مارجن ہوتا ہے۔‘
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ وہ منفی کردار کرنا چاہتی ہیں، لیکن گھر تباہ کرنے والے کردار نہیں۔ ’کسی کی طلاق کروانے والے نہیں، بلکہ مختلف انداز کے کردار کرنا چاہوں گی۔‘