ڈراما سیریل ’دو کنارے‘ میں درشہوار کا کردار نبھانے والی مومنہ اقبال کہتی ہیں کہ اگرچہ یہ کردار منفی ہے، مگر شوٹنگ کے دوران ایسے لمحات بھی آئے جب انہیں اپنے ساتھی اداکار جنید خان پر بارہا ترس آ گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مومنہ نے بتایا کہ ’دو کنارے‘ کی عکاسی کے دوران انہیں کئی بار ساتھی اداکار جنید خان پر ترس آیا، خاص کر جب وہ طلاق مانگتی ہیں تو اس وقت بہت زیادہ ترس آیا تھا۔
جنید خان اس ڈرامے میں ’درشہوار‘ کے شوہر ’ولید‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
’عہدِ وفا‘ اور ’خدا اور محبت‘ جیسے ڈراموں سے شہرت حاصل کرنے والی مومنہ اقبال کہتی ہیں کہ ’درشہوار‘ کی بے باکی، من مانی اور دوسروں کو قابو میں رکھنے کی مسلسل کوشش نے اس کردار کو دلچسپ بنا دیا ہے۔
’میں اس کردار کو بھرپور مزہ لے کر کر رہی ہوں کیونکہ اس سے مجھے عوام میں پذیرائی اور پیار ملا ہے۔ ویسے بھی ایک اداکار کے لیے اتنا منفی ہونا مشکل ہوتا ہے کیونکہ سارا دن ڈرامے کے لیے منفی حرکتیں کرتے ہوئے ہی گزرتا ہے۔‘
اس کردار کے انتخاب کے حوالے سے مومنہ نے بتایا کہ ’اس کی وجہ اس کا گلیمرس ہونا تھا کیونکہ رونا دھونا تھا نہیں، اس لیے مجھے دلچسپ محسوس ہوا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس ڈرامے میں ان کے کردار کے ساتھ ساتھ ان کے انداز اور ملبوسات کو بھی بے حد پسند کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں نے اس پر بہت محنت کی ہے، اسی لیے ڈرامے کی شوٹنگ کے تسلسل میں بھی فرق آیا کیونکہ میں کہیں بھی محنت میں کمی نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘
اپنے کیریئر کے آغاز کو یاد کرتے ہوئے مومنہ نے کہا: ’عہدِ وفا میں معصومہ تو وہ خود ہی تھیں، اس لیے وہ انہیں بہت زیادہ یاد ہے کیونکہ وہ پہلا کام تھا اور وہ اسے کبھی بھول ہی نہیں سکتیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’خدا اور محبت‘ میں ’ناہید‘ کا کردار ’معصومہ‘ سے بالکل مختلف تھا۔’لیکن اسے محبت نہیں ملی، اس لیے وہ کیا کرتی۔‘
فلمی سفر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مومنہ نے بتایا: ’میری پہلی فلم ’دال چاول‘ تھی جو لاہور سیف سٹی کی جانب سے بنائی گئی تھی۔ سارا پاکستان ہی میری پہچان ہے، لیکن میرا دل پنجاب کے قریب ہے اور وہ پنجاب پولیس کی کہانی تھی اس لیے میں اس کا حصہ بنی، یہ ایک طرح سے پنجاب پولیس کا احترام تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ہمایوں سعید اور ماہرہ خان کی فلم ’لو گرو‘ میں مختصر کردار کے باوجود وہ خوش تھیں۔
’میں کب سے ہمایوں سے درخواست کر رہی تھی کہ وہ میرے ساتھ کام کرلیں، اس لیے جب موقع ملا تو فوراً کرلیا۔ اگرچہ کردار بہت ہی مختصر یا مہمان اداکار کا تھا۔‘
مستقبل کے پراجیکٹس کے حوالے سے مومنہ نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اب کوئی جذباتی کردار کرنا چاہتی ہیں۔ ’امید ہے کہ مجھے ایسا کردار ملے گا کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ میں ایسا کردار بہت اچھا کر سکتی ہوں۔‘
پاکستانی ڈراموں میں یکسانیت کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں، وہی چلتا ہے۔ ’کئی مرتبہ ایسے ڈرامے بھی کامیاب ہوتے ہیں، جس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔‘
سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے مومنہ نے کہا کہ اس شعبے سے کئی لوگوں کے گھر چل رہے ہیں، لوگ کما رہے ہیں، کاروبار کر رہے ہیں لیکن توجہ صرف اس کے منفی پہلوؤں پر ہی دی جاتی ہے، لہذا اس کا مثبت پہلو بھی دکھانے کی ضرورت ہے۔
انٹرویو کے دوران مومنہ نے اپنی سوشل ٹرولنگ کے تجربے کا بھی ذکر کیا، جس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’اس وقت خاندان اور دوستوں کی جانب سے بہت مدد ملی، اس لیے وہ وقت گزر گیا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو سوشل میڈیا پر کسی کی عزت کو نشانہ بنانے کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔
بقول مومنہ: ’میں نے کوشش کی کہ لڑکیوں کے بارے میں غلط باتیں نہ ہوں، بہت غلط ہے کیونکہ عزت تو مرد اور عورت دونوں کی ہوتی ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کچھ کرسکوں، مگر کچھ ہو نہیں سکا۔ حکومت کو چاہیے کہ کسی کی عزت پر بات آئے تو اس پر ایکشن لے کیونکہ عزت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔‘