جوں ہی ماہ رمضان شروع ہوتا ہے، ٹی وی پر اشتہارات کا ایک نیا زاویہ دیکھنے کو ملتا ہے، جس میں رمضان سے متعلق آفرز بھی ہوتی ہیں۔ ایک طرف فیلمی تھیم پر بنے اشتہارات ہماری ٹی وی سکرینوں پہ چھائے رہتے ہیں، تو دوسری طرف انٹرٹینمنٹ چینلز بھی ایک مخصوص فیملی کے مرکزی خیال پر بنے ڈرامے نشر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ ڈرامے افطار کے بعد پرائم ٹائم میں تقریباً ہر چینل سے دکھائے جاتے ہیں، جن میں عموماً دو خاندان ہوتے ہیں، جو یا تو کسی پرانی دشمنی کو کامیڈی طرز پر نبھا رہے ہوتے ہیں یا کوئی بیرون ملک سے آئی فیملی رمضان کے بعد بچوں کی خاندان میں شادی کا پلان کر رہی ہوتی ہے۔
اس سبھی کے دوران افطارا ور سحری کا بھی تذکرہ کر دیا جاتا ہے، لیکن ہوتا سب طنز و مزاح کے انداز میں ہے۔
ٹی وی دیکھنےوالے لاکھوں ناظر اپنی ٹی وی یا فون سکرینز پر سہولت کے مطابق ان ڈراموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور برسوں ان کرداروں میں خود کو بھی ٹٹولتے ہیں، جیسے’سنو چندا کی بی جان، چھنو اور بلو جی تو دوسری طرف آزر کی آئے گی بارات کی صائمہ چوہدری اور چپکے چپکے کی دادی بختو ہوں یا بے بے۔‘
ان سبھی رمضان سپیشل ڈراموں کی ابتدا ہوئی ’محمد احمد اور خدیجہ غازی‘ کے لکھے ’آزر کی آے گی بارات سے‘ جو تقریباً 10 سال قبل لکھا گیا ور اس کے کئی سلسلے لکھے گئے۔
اس کے بعد صائمہ اکرم چوہدری نے لکھ ڈالے ’سنو چندا‘ اور ’چپکے چپکے۔‘ اس وقت بھی دوران رمضان ’دل والی گلی میں اور آس پاس‘ ہم سبھی کی ٹی وی سکرین پہ روز لگائے جاتے ہیں۔
ان ڈراموں سے جڑی, ’نانی اور دادی‘ کے کردار نبھاتی ثمینہ احمد سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا اور ڈراموں کی تھیم کامیڈی ہونے کی وجہ جانی تو ثمینہ احمد نے کہا کہ ’ایک روایت سی بن گئی ہے کہ ہلکے پھلکے انداز میں زندگی کے مختلف موضوعات کو روزے کی حالت میں دیکھا اور سمجھا جا سکے، تقریباً ہر کہانی کی تھیم ایک ہی جیسی ہے، بس ان کو دیکھنے کا انداز ذرا مسکرا دینے والا ہوتا ہے۔
’ان خصوصی ڈراموں کا رمضان کی اصل روح سے کچھ زیادہ لینا دینا نہیں ہوتا۔‘
بقول پروڈیوسر ایکٹر شمعون عباسی: ’رمضان کو اگر ٹی وی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اشتہارات کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے۔ پہلے رمضان کے دوران جو ڈرامے بنا کرتے تھے ان میں رمضان کی روح کو ہلکے پھلکے انداز میں ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا، لیکن اب اشتہارات بھی فیملی کے موضوع پر بنتے ہیں اور ڈرامے بھی اسی طرح لکھے اور بنائے جاتے ہیں۔
’کمرشل اینگل کے باعث ڈراموں کا زاویہ بھی بدل گیا ہے۔ اب کامیڈی اور چمک دمک ہونی چاہیے، اسی پہ ایڈورٹائیزر اپنا پیسہ لگا دیتا ہے۔‘
شمعون عباسی نے ان ڈراموں کی نفسیات اور طرز کو کمرشل یا کاروباری زاویے سے جوڑ کر دیکھا ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ اب چند سال سے عید کے ڈراموں میں بھی کامیڈی اور رنگ برنگے انداز سے کام لیا جاتا ہے اور عید اور رمضان سے ان ڈراموں کا کم ہی کچھ لینا دینا ہوتا ہے۔ ایڈورٹائز کے ہاتھوں لکھنے والے اور چینلز سبھی مجبور ہیں۔‘
ثمینہ احمد اس کے بر عکس سوچتی ہیں، ان کا خیال ہے کہ ’جب سبھی چینل پورا سال سنجیدہ اور مار کٹائی سے بھرے ڈرامے بنا رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں رمضان کے ڈراموں کی کامیڈی تھیم ایک مثبت تبدیلی ہے اور اسے بھی انجوائے کرنا چاہیے۔ کبھی کبھی اپنے مسائل سے سر جھٹک کر بھی زندگی کو دیکھنے کا موقع ملنا چاہیے۔‘
’چپکے چپکے‘ کی ’بے بے‘ اسما عباس سے جب انڈیپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو انہوں نے ان ڈراموں سے متعلق اپنا زاویہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ سال قبل جب رمضان سپیشل ڈراموں کا سلسلہ شروع ہوا تو پہلا کھیل کامیڈی کی طرز پہ لکھا گیا جو ہٹ ہوا اور پھر آج تک اسی فارمولے کو دہرایا جا رہا ہے ۔
’ایک ہی لکھاری نے رمضان کے کئی سیریل لکھے اور کم و بیش ایک ہی سٹائل کو الٹ پلٹ کے ایک سا لکھا جو خوب سراہا گیا ور آج بھی وہی ٹرینڈ قائم ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’روزے دار روزوں کے دوران نقاہت بھی محسوس کرتے ہیں اوران کے ذہنوں میں عبادات کی ادائیگی کی دھن سوار رہتی ہے، ایسے میں کامیڈی تھیم پہ بنا ڈرامہ روح کو تازگی اور ذہن کو ہلکا رکھتا ہے۔‘
انڈیپینڈنٹ اردو نے مختلف عمر کے افراد سے اسی حوالے سے بات کی تو خصوصاً ’ہاوس وائف یا ہوم میکر‘ خواتین نے ان سبھی ڈراموں کو کھلے دل سے سراہا اور ان کے کرداروں کو بھی یادگار قرار دیا۔
ان خواتین کا ماننا تھا کہ گھر کے کاموں اور رمضان کے لوازمات کے دروان کچھ دیر ٹی وی یا فون کی سکرین پہ یہ فیملی ڈرامے بےاختیار مسکرا اٹھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
بیشتر سیلیبرٹی افراد کا یہ بھی ماننا تھا کہ ’ان سبھی ڈراموں میں رمضان کی روح صرف افطار اور سحری کی میز تک محدود ہوتی ہے اور اگر کوشش کی جائے تو ہلکے پھلکے انداز میں تحریر کردہ سکرپٹ میں رمضان اور عید کی اصل تھیم کو بھی پرویا جا سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ماضی میں خصوصی رمضان ڈرامے نہیں بنا کرتے تھے لیکن یہ زاویہ بھی اچھا ہے کہ روزوں کے دوران ہم ایک صحت مند انداز میں مزاح سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیںَ اور وہ بھی پوری فیملی کے ساتھ بیٹھ کر۔ یہ بھی ان لکھاریوں کا کمال ہے کہ وہ گھر کے ہر فرد کو اپنے کردار میں سینچ لیتے ہیں۔‘
اداکارہ اسما عباس نے اس بارے میں انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب انہوں نے ڈرامہ ڈائریکٹر یا پروڈیوسر سے اس بارے میں بات کی کہ ان خصوصی ڈراموں میں رمضان کی کمی محسوس ہوتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈرامے دوبارہ بھی چلائے جاتے ہیں اگر ان کو صرف رمضان یا عید کی تھیم سے جوڑ دیا جائے تو یہ نشر مکرر کے دائرے سے باہر ہو جائیں گے۔‘
ٹیلی وژن کی معروف اور بےمثال اداکارہ ثمینہ احمد اس صورت حال کو ایک اور انداز سے بھی دیکھتی ہیں کہ ’رمضان بھر میں شان سحور اور افظار سپیشل پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں، جن میں صرف رمضان کی فضیلت اور افادیت بیان کی جاتی ہے وہاں یہ کامیڈی تھیم پپ بنے خصوصی ڈرامے بھی مثبت کردار رکھتے ہیں۔‘
ان خصوصی ڈراموں کا زاویہ اور نظریہ کچھ بھی ہو، پکوڑوں اور تراویح کے درمیان ’آزر کی آئے گی بارات، سنو چندا، چپکے چپکے، دل والی گلی میں اورآس پاس‘ جیسی تھیم والے فیملی ڈرامے ہر گھر میں گھر والوں کو اکھٹے ہنسنے اور اپنی فکروں سے سر جھٹکنے کا ایک عمدہ موقع ضرور دیتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔