سردار کمال پنجابی تھیٹر اور فلم کا ایک مشہور و معروف نام ہیں جو پاکستان کے علاوہ انڈیا اور دنیا میں جہاں جہاں بھی پنجابی فلم یا تھیٹر دیکھنے والے ہیں ان میں بہت مقبول ہیں۔
گذشتہ دنوں سردار کمال ایک فلم ’ہیر پھیر‘ کی عکاسی کے سلسلے میں کراچی پہنچے تو ہم نے انہوں جا لیا اور گزارش کی کہ کچھ بات کر لیں، وہ مان تو گئے لیکن عکس بندی ختم ہونے میں اتنا وقت ہو گیا کہ ان کی لاہور کے لیے پرواز کا وقت ہو گیا۔
وہ تو خدا بھلا کرے کہ پی آئی اے کی پرواز میں حسب معمول تاخیر ہو گئی اور ہم نے پہلی مرتبہ پرواز میں تاخیر پر پی آئی اے کا شکریہ ادا کیا اور سردار کمال صاحب سے کہا کہ اب کوئی عذر رہ نہیں گیا۔
اس انٹرویو کا اشتیاق اس لیے بھی زیادہ تھا کہ 19 جنوری کو ان کی ایک پنجابی فلم ’ڈرامے آلے‘ سینیما میں پیش کی جا رہی ہے، تو ہم نے سوچا کہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، اور شروع کرتے ہیں انٹرویو۔
پنجابی فلم ڈرامے آلے کے بارے میں سردار کمال نے بتایا کہ پاکستان اور انڈیا کے فنکاروں پر مشتمل ہے جس میں انڈین پنجاب سے ہریش ورما ہیں جو ہیرو ہیں، جبکہ پاکستان سے ان کے علاوہ آصف اقبال، روبی انعم جو اس کی پروڈیوسر بھی ہیں، حنیف بیلا اور قیصر پیا اس میں کام کر رہے ہیں۔
برطانیہ میں فلمیں اور خاص کر پنجابی فلمیں بننے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ میں فلم سازوں کو خاص رعایت دی ہوئی ہے جس کا پوری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے، مگر پاکستان میں اس کا فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔
’ان کا حساب کچھ ایسا ہوتا ہے کہ فلم کا خرچہ وہیں برابر ہوجاتا ہے اور کوئی نقصان میں نہیں رہتا۔ یہ رعایت سب کے لیے تھی اور سب ہی نے فائدہ اٹھایا ہے، مگر پاکستان سے کسی پروڈیوسر نے ہمت ہی نہیں کی کہ وہاں فلم بناتے۔‘
سردار کمال کا کہنا ہے کہ ’چین نے بھی پاکستان کو 500 سکرینز دے رکھی ہیں، لیکن ’میرا نام محبت ہے‘ کے بعد سے کوئی بھی فلم وہاں ریلیز نہیں ہوئی ہے۔‘
سردار کمال کے مطابق ’ایسا نہیں ہے کہ تمام کے تمام فنکار وہاں جا کر کام کر رہے ہیں، لیکن وہ کام کرنا چاہتے ہیں۔ اکثر تو وہ ہمارے فنکاروں کے ساتھ جب رابطہ کرنا چاہتے ہیں تو رابطہ ہی نہیں ہو پاتا، تو ابھی تو رابطے کے بہت مسائل ہیں، لیکن ہمارے فنکاروں کی وہاں شہرت تھیٹر کی وجہ ہی سے ہے۔
فلموں کی بہتری کے لیے ان کا کہنا تھا کہ ’فلمیں بننا ضروری ہیں، اور کراچی میں فلمیں بن رہی ہیں یہ بڑی بات ہے، صرف ٹیمپو کا مسئلہ ہے کہ ٹی وی اور فلم کے ٹیمپو کا فرق ہوتا ہے، وہ سمجھنے کی ضرورت ہے اور امید ہے کہ فلم آگے جائے گی بس واپس نہیں جانا چاہیے۔‘
سردار کمال نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں سینیما چل ہی باہر سے آنے والی پنجابی فلموں کی وجہ سے رہا ہے، پوری پوری فیملیز آتی ہیں پنجابی فلمیں دیکھنے۔
’لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم کیوں پاکستان میں ایسی فلمیں نہیں بنا رہے، ہم پہلے بنا چکے ہیں، تو کیا ہمیں کام بھول گیا ہے؟ یادداشت چلی گئی، معلوم نہیں مسئلہ کیا ہے؟‘
سردار کمال نے شکوہ کیا کہ مولا جٹ کی کامیابی کے بعد اگر ان کی ٹیم چھوٹے بجٹ کی چھ سات فلمیں بنانا شروع کر دیتی تو فلمی صنعت چل پڑتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی فلم ’ڈرامے آلے‘ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ ڈرامے والوں ہی کی کہانی ہے جس میں انہیں دکھایا گیا ہے مگر بٹوارے کے بارے میں ہے کہ ہماری رسمیں ملتی ہیں، ہمارے کھانے ملتے ہیں، عادات ملتی ہیں، یہ فلم موجودہ دور کی ہے مگر تقسیم ہند کے بارے میں ہے، اور انہیں امید ہے کہ یہ اچھی فلم ثابت ہو گی۔
فلموں کے ذریعے پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن کے پیغام کے بارے میں سردار کمال نے کہا کہ ’ہم اور وہ تو ملنا چاہتے ہیں، لیکن اگر ہمارے بڑے ہمیں نہ ملنے دیں تو ہم کیا کریں؟‘
سردار کمال نے بالی وڈ فلموں کے پاکستان میں لگنے کی مکمل حمایت کی اور کہا کہ ’اگر ایک اچھی بڑی فلم لگی ہوتی ہو تو اس کے ساتھ کمزور فلم بھی چل ہی جاتی ہے، یہ سینیما کی بقا کے لیے ضروری ہے کیونکہ ابھی جو فلمیں لگتی ہیں وہ دو تین دن ہی میں اتر جاتی ہیں۔‘
اردو اور پنجابی سینیما کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت تو راج پنجابی سینیما کا چل رہا ہے، عالمی سرکٹ پر ہماری فلمیں لگ رہی ہیں، لیکن انڈیا میں ہمیں اب تک جگہ نہیں ملی ہے، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس معیار کی فلم تو بنائیں تاکہ جب ہماری فلم ان کے ساتھ لگے تو اس کا معیار تو اچھا ہو۔‘
سردار کمال نے حکومت سے سوال کیا کہ ’ایک فلم پالیسی دینے کا دعویٰ کیا تھا تو وہ ہے کہاں اور کس کے پاس ہے، کیونکہ پنجاب میں تو سٹوڈیو میں لوگ آج تک اس امید پر بیٹھے ہیں کہ پھر کوئی سلطان راہی آئے گا، اور پھر سے وہ دن واپس آئیں گے، وہ لوگ آج بھی وہیں ہیں اور اسی امید پر زندہ ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔