سینیما چلانے کے لیے بالی وڈ فلمیں لگانی ہوں گی: فیصل قریشی

فلم اور ٹیلی ویژن اداکار فیصل قریشی کہتے ہیں کہ پاکستانی سینیما چلانے کے لیے ملک میں بالی وڈ فلموں کو نمائش کی اجازت دینی ہو گی کیوں کہ پاکستانی ان فلموں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

فیصل قریشی کا شمار پاکستان کے صف اول کے اداکاروں میں ہوتا ہے اور وہ طویل عرصے سے پاکستانی ڈراموں میں بطور اداکار اور ٹی وی پر بطور میزبان کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے فیصل قریشی سے ان کی نئی فلم کے سیٹ پر خصوصی گفتگو کی ہے۔

پاکستانی فلمی صنعت کے مسائل اور ان کے تدارک کے لیے فیصل قریشی نے کہا کہ ’سب سے پہلے پاکستان میں سینیماز کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا، سینیما بھی وہ جس کا ٹکٹ سستا ہو، جسے عام آدمی بھی دیکھ سکے، کیونکہ مہنگا ٹکٹ وہ نہیں خرید سکتا۔

’سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستانی سینیما چلانے کے لیے بالی وڈ کی فلمیں کھولنی ہوں گی، کیونکہ پاکستانی عوام کی خواہش ہوتی ہے وہاں کی فلمیں دیکھنا، اس سے پہلے دو ڈیجیٹل پورٹل پاکستان آئے تھے لیکن خوامخواہ کی لڑائی میں وہ کام روک دیا گیا، 60 سے 70 ارب تو بھارت سے پیسہ ادھر آرہا تھا، نہ جانے کیوں جہاں سے پیسہ آتا ہے وہ جگہ ہم بند کر دیتے ہیں‘۔

حال ہی میں فیصل قریشی نے ایک نہیں بلکہ دو فلمیں سائن کی ہیں۔ ایک اردو اور ایک پنجابی فلم، جس کے بعد وہ فلموں میں واپسی کے لیے پرامید ہیں۔

ایک فلم ’دیمک‘ کی تو عکاسی شروع ہوچکی ہے جبکہ پنجابی فلم کی عکاسی بھی جلد ہی شروع ہونے والی ہے۔

فلم ’دیمک‘ کے سیٹ پر ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انٹرویو کی فرمائش کی جو انہوں مان تو لی مگر فلم کے سیٹ پر انٹرویو ہو نہیں سکا، پھر ایک دن سارا سامان اٹھا کر ان کے گھر پہنچ گیا اور کہا کہ اب تو کوئی عذر ممکن ہی نہیں، تو یوں یہ انٹرویو آپ کے لیے ممکن ہوا۔

پہلا سوال یہی تھا کہ اتنا وقت گزر گیا فلم کیے ہوئے، خوش ہیں یا کہیں ڈر بھی ہے؟ دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ فیصل قریشی نے کہا کہ ’خوشی تو ہے، بلکہ بہت زیادہ خوشی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ہلکا سا ڈر بھی ہے کہ اپنی فلم شروع کی، پھر اسے بند کر کے کسی دوسرے کی فلم کے سیٹ پر جانا اور وہ بھی ایک مختلف قسم کی ڈراؤنی فلم تو متضاد احساسات ہیں، اس لیے ابھی کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔‘

فیصل قریشی نے ایک فلم ’سوری‘ شروع کی تھی جسے بعد میں بند کر دیا گیا، جس کا انہیں بہت افسوس ہے، تو کیا اِس فلم سے اس فلم کے دکھ کا مداوا ہوا؟ اس بارے میں فیصل قریشی کا کہنا تھا کہ وہ فلم بہت دل سے بنا رہے تھے، اس لیے اس کے بند ہونے کا مداوا نہیں ہوسکتا، لیکن ٹھیک ہے ایسا ہو جاتا ہے۔

فلم ’سوری‘ کے بند ہونے کا براہِ راست الزام کسی کو دینے سے فیصل قریشی نے اجتناب کیا۔

لیکن آخر فیصل قریشی نے فلموں میں واپسی کے لیے اس صنف کا انتخاب کیوں کیا، اس بارے میں انہوں ںے وضاصت کہ ڈراؤنی فلمیں پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کم بنی ہیں، اگرچہ ماضی میں ایسی فلمیں بہت بنی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فلم اچھی لکھی ہوئی ہے، کہ کرونا کا وقت ہے، ایک گھرانہ ہے، بہت سارے مسائل ہیں، اور ان کے گرد یہ کہانی گھوم رہی ہے، مزید یہ کہ یہ طویل فلم نہیں ہے، امید ہے کہ اس کا دورانیہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے درمیان ہی میں رہے گا۔ غرض یہ ایک ایسی فلم ہے جو گھروالوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔

اپنے کردار کی تفصیلات عیاں کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ کوئی جن یا بھوت نہیں بنے، وہ ایک ایسے گھر کے سربراہ ہیں جن کے ساتھ کچھ پراسرار معاملات ہیں، ’میں کسی کو ڈرا نہیں رہا، میں خود ڈر رہا ہوں‘۔

فیصل قریشی ایک اور پنجابی فلم بھی سائن کی ہے، جس کا نام ہے ‘مینگو جٹ‘۔ اس کے بارے میں فیصل قریشی کا کہنا تھا کہ بہت سے سماجی مسائل پر اس فلم میں بات کہ گئی ہے، لیکن اس پر غلاف مزاح کا چڑھایا ہے، اس لیے یہ فلم پورا گھرانہ ایک ساتھ لطف اندوز ہ وکر دیکھ سکتا ہے۔

فیصل قریشی نے بتایا کہ ان کی ایک فلم تھی ’دو جی دار‘ اس میں وہ گنڈاسہ پکڑ چکے ہیں، لیکن مینگو جٹ میں ایکشن تو ہے لیکن گنڈاسہ نہیں ہے۔

انہوں نے نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زیرتکمیل دونوں فلموں مختلف نوعیت کی ہیں، ایک ڈراؤنی فلم ہے اور دوسری محبت، مزاح سے بھرپور ہے، لیکن دونوں میں انسانوں کے جو رشتے ہیں ان پر بات کی گئی ہے۔

فلم دیمک کے بارے میں فیصل قریشی نے بتایا کہ ان کے ساتھ سونیا حسین ہیں، لیکن مینگو جٹ کے بارے میں ابھی یہ بات کرنا قبل از وقت ہے۔

اس سال نومبر میں فیصل قریشی کے دو ڈرامے ’ظلم‘ اور ’شکار‘ شروع ہوئے جن میں وہ منفی کردار کررہے ہیں۔ اس تبدیلی پر ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں موجود برے آدمیوں کو بھی دکھانا ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح کے کردار دکھانا چاہیئں کہ ایسے افراد سے کیسے لڑنا ہو گا۔

شکار کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ وہ پنجاب کا کردار ہے اس لیے وہ کچھ پنجابی فلموں جیسا کردار ہے۔

ڈراما ظلم کے بارے میں فیصل قریشی نے مزید کہا کہ ظلم میں جو ان کا کردار ہے جو کافی رنگین مزاج ہے، تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ جو اصل زندگی میں نہیں کرسکتے تو ڈراموں میں کرلیتے ہیں۔

پاکستانی ڈراموں میں خواتین پر بہت زیادہ مظالم دکھانے کے ضمن میں ہونے والی نکتہ چینی پر فیصل قریشی نے سوال اٹھایا کہ ظلم کہاں نہیں دکھایا جاتا، ڈراموں میں خواتین کو مضبوط اور باہمت بھی دکھایا جا رہا ہے، ابھی اگر ڈراما ظلم کی بات کر لیں تو اس لڑکی کی جد و جہد ہے اور وہ اٹھے گی اور کامیاب ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اخبارات دیکھیں، ٹی وی پر خبریں دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ خواتین پر کتنا ظلم وہاں دکھایا جا رہا ہے، صرف بات کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، حقیقت بہت مختلف ہوتی ہے۔

پاکستانی ڈراموں کے یکسانیت کا شکار ہونے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں مختلف ڈرامے بنے مگر وہ چلے نہیں، انہیں دیکھا نہیں گیا، کیونکہ آخر کار یہ کاروبار ہے اور چینل کو ریٹنگ پر ہی اشتہارات ملتے ہیں۔

’ابھی ایک مختلف ڈراما آیا تھا، رضیہ، اس میں ماہرہ خان تھیں، وہ خواتین کی خود مختاری پر اتنا اچھا کام ہوا تھا، لیکن اس پر اتنی بات ہی نہیں ہوئی، ڈراما زیادہ دیکھا ہی نہیں گیا۔

اپنے وزن کا قابو میں رکھنے یا کم کرنے کے لیے جو طریقے اپنائے ہیں ان پر ان کا کہنا تھا کہ معلوم سب کو ہوتا ہے، وہ جم جاتے ہیں، روٹی، چاول، چینی نہیں کھاتے، براؤن بریڈ سے کچھ نہیں ہوتا، کیلوریز اتنی ہی ہوتی ہیں، کم کھانا ہوتا ہے، صبح اٹھ کر ورزش کریں زندگی آسان ہوجائے گی۔

پاکستانی شوبز میں فیصل قریشی دو ہیں، دوسرے والے ہدایتکار بھی ہیں، اس الجھن کے بارے میں چند واقعات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ابھی جب ان کی فلم آئی تو ہر ایک مجھے مبارک بعد دے رہا تھا، اور یہاں تک کہ کچھ فلمی ناقدین نے بھی ان پر نکتہ چینی کر دی جنہیں فون کر کے سمجھانا پڑا۔

فلم منی بیک گارنٹی میں یہ دونوں ایک سین میں ساتھ آئے تھے اور کوشش تھی کہ صحافی فیصل قریشی کو بھی شامل کیا جائے مگر وہ موجود نہیں تھے، بس اسی پر سب رہ گیا۔

آخر میں انہوں نے بتایا کہ ایک تقریب میں تو انہیں بہترین صحافی کا ایوارڈ تک دے دیا گیا ان کی تصویر لگی ہوئی تھی، تو یہ سب تو ہوتا آ رہا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم