عامر خان کی نئی فلم ’ستارے زمین پر‘ اپنے پہلے پانچ دنوں میں 75 کروڑ انڈین روپے کما چکی ہے۔
دوسری ہفتہ وار چھٹیوں تک یہ 100 کروڑ انڈین روپے کا ہندسہ عبور کر جائے گی۔ آپ اسے کاپی پیسٹ فلم کہیں یا عامر خان کے انتخاب کی داد دیں، جو ہمیشہ ایسے موضوعات پر فلم بناتے ہیں جس میں سماجی حوالے سے کوئی گہرا پیغام ہو۔
اس فلم نے ’مسٹر پرفیکٹ‘ کو نئی زندگی دی ہے۔ فلم کی کہانی ذہنی طور پر منفرد صلاحیت رکھنے والے ایک بچے اور اس کے استاد کے گرد گھومتی ہے۔
فلم میں مگر ذرا مختلف زاویے سے ان کی زندگی کی عکاسی کی گئی۔
فلم کا زور ڈسلیکسیا یا دیگر لرننگ ڈس آرڈرز کی بجائے اس بات پر رہا کہ دوسروں کے رویے کسی منفرد شخصیت کو کیسے متاثر کرتے ہیں۔
ذہنی صحت، سماجی دباؤ اور خود اعتمادی کیسے بیکار سمجھے جانے والے بچوں کی زندگیاں تبدیل کر سکتی ہے۔
عام زندگی میں ایسے لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جن کے بچپن میں ہونے والی والدین کی سختی اور سماجی دباؤ انہیں زندگی بھر کے لیے مختلف وسوسوں کا شکار بنا دیتے ہیں۔
کس طرح ایک بچہ سماجی روایات، تعلیمی اداروں کے دباؤ اور والدین کی غیر حقیقت پسندانہ توقعات کے باعث اپنی شخصیت کھو بیٹھتا ہے۔
اگر بچے میں پہلے سے معمولات زندگی سے ہٹ کر کچھ رجحانات پائے جاتے ہوں تو زندگی سراپا عذاب بن جاتی ہے۔
فلم میں ایک ماہر نفسیات اور استاد کے روپ میں نظر آنے والے عامر خان ہمیں بتاتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
بچوں کی ایک اپنی دنیا، اپنی نفسیات اور زندگی جینے کا ڈھب ہوتا ہے۔ معاشرہ ان کا باپ بننے کے چکر میں ان کی خواب ناک دنیا آلودہ کر دیتا ہے۔
عامر فلم میں نہ صرف بچے کو سمجھتے ہیں بلکہ اسے اپنی ذات، اپنے کھوئے ہوئے حقیقی وجود اور ذہنی ساخت کو دوبارہ حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
فلم کا ایک شاندار پہلو لاجواب اداکاری ہے۔ نیورولوجکلی مختلف ہونے کا مطلب ہے کہ ان کا دماغ عام یا روایتی انداز سے کام کرنے کی بجائے مختلف انداز میں سوچتا ہے۔
ان کا رویہ اور ردعمل بھی روٹین سے ہٹ کر ہوتا ہے۔ ایسے بچوں کو فلم کا حصہ بنانا اور پھر ان سے اچھی اداکاری کروانا ایک حوصلہ افزا عمل ہے۔
بچے یقیناً شروع میں کیمرے کے سامنے آنے سے گھبراتے رہے ہوں گے۔ بچوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا اور پرفارمنس لے لینا غیر معمولی بات ہے۔
فلم کی ریلیز سے پہلے میڈیا پر کوئی خاص پروموشن نہیں کی گئی۔ فلم 90 کروڑ انڈین روپے کے بجٹ سے تیار ہوئی جو آج ریلیز ہونے والی فلموں کی لاگت کے مقابلے میں کافی مناسب ہے۔
فلم کی ریلیز سے پہلے زیادہ تشہیر نہ کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کی خواہ مخواہ کی توقعات وابستہ نہیں ہوئیں۔
ایک چھوٹی فلم کے تاثر کے ساتھ ’ستارے زمین پر‘ ریلیز ہوئی اور قابل قدر باکس آفس کامیابی سمیٹی۔
فلم نے نہ صرف انڈین مارکیٹ میں اچھے پیسے کمائے بلکہ بین الاقوامی مارکیٹ، خاص طور پر متحدہ عرب امارات، امریکہ اور برطانیہ میں خاطر خواہ کاروبار کیا۔
فلم کی ایک اور کامیابی یہ رہی کہ لوگ اس کی کہانی سے جذباتی وابستگی محسوس کرنے لگے۔
جب کوئی فلم شائقین کے دلوں پر جذباتی گھاؤ لگانے میں کامیاب رہے اس کا باکس آفس سفر خود بخود لمبا ہو جاتا ہے۔
’لال سنگھ چڈھا‘ کی کہانی پیچیدہ تھی۔ محبت کے پیچیدہ جذبات لوگوں کی سمجھ میں آئے نہ جذباتی وابستگی پیدا ہو سکی۔
’لال سنگھ چڈھا‘ کی ناکامی کے بعد یہ فلم عامر کا ماسٹر سٹروک ہے۔ انہوں نے کسی بڑے ایڈوینچر کی بجائے ایسی میدان میں قدم رکھا جو ان کے لیے اجنبی نہ تھا۔
سبق آموز کہانیاں عام افراد کو پسند ہیں۔ عامر پہلے بھی یہ کہانیاں سنا کر آگے بڑھتے رہے اور آج بھی بڑھ رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ستارے زمین پر‘ کے ہدایت کار بھی عامر خان خود تھے۔
انہوں نے ہر فریم کو معنی خیز بنانے کی کوشش کی۔
سکول کے مناظر، گھریلو زندگی کی کشمکش اور جذباتی لمحات کو عمدگی سے فلمایا گیا ہے۔ اتنی عمدگی جتنی کی عامر خان سے توقع کی جا سکتی۔
شنکر - احسان - لوئے کی موسیقی نے فلم کی جذباتی فضا کی آنچ مزید تیز کی۔
’تارا سا بچہ‘ اور ’روشنی ہوں میں‘ نہ صرف سننے والوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں بلکہ چند لفظوں میں فلم کی کہانی بھی بیان کر دیتے ہیں۔
فلم کا سماجی پیغام بہت واضح ہے کہ ہر بچہ خاص ہے، اسے سمجھنے، سننے، اور قبول کرنے کی ضرورت ہے۔
اسے کامیابی کی دوڑ میں دھکیلنے اور والدین کے اور ٹیچر خوابوں کی تکمیل کے لیے نہیں پیدا کیا گیا۔ اس کی اپنی زندگی، اپنا لائف سٹائل ہے جس کا احترام کرنا چاہیے۔
فلم آرٹ پیس کے طور پر فارغ ہے لیکن ایک ایسا میڈیم جو لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر اس کے ذریعے بہتر سماج تخلیق کرنے کی کوشش کی جائے تو میرے خیال میں اس میں کوئی برائی نہیں۔
اگر فلم کی خامیوں کی بات کی جائے تو کئی مقامات پر کہانی اور مرکزی خیال ’تارے زمین پر‘ سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔
اس سے تاثر پیدا ہوتا ہے کہ عامر شاید پرانی فلم ہی نئے رنگ روغن کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
فلم کی کہانی بہت آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے، بالخصوص آخری نصف حصے کے بعد مقامات تو آپ کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔ بقول شخصے فلم کو ایڈیٹنگ کی شدید ضرورت ہے۔
’ستارے زمین پر‘ عامر کے لیے نئی اننگز کا آغاز ہے۔ ’لال سنگھ چڈھا‘ کی ناکامی کے بعد یہ تاثر بہت مضبوط ہوا تھا کہ عامر خان کے لیے سکرین پر واپسی بہت مشکل ہے۔
اس فلم نے ہمیں قائل کیا کہ عامر اب بھی وہی ’مسٹر پرفیکشنسٹ‘ ہیں جو اپنے فارمولے کو نہ چھوڑیں تو گاہک ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔
یہ فلم ان کے کیریئر کے اگلے مرحلے کی بنیاد بن سکتی ہے، جہاں وہ اپنی توفیق کے مطابق زیادہ تخلیقی اور سماجی لحاظ سے اہم موضوعات کو سنیما کے ذریعے پیش کر سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔