سنیل شیٹی: 128 نیپالی خواتین کو جنسی غلامی سے نجات دلانے والا ہیرو

1996 میں غیر قانونی طور پر انڈیا لائی گئی 456 نیپالی خواتین کی واپسی کے اخراجات اور انتظامات کا بیڑا بالی اداکار سنیل شیٹی نے اٹھایا، جس کا کافی عرصے تک بہت کم لوگوں کو معلوم تھا۔

بالی ووڈ اداکار سنیل شیٹی 16 دسمبر 2019 کو ممبئی میں آنے والی ہندی-تامل-تیلگو زبان کی ایکشن تھرلر فلم 'دربار' کے ٹریلر لانچ کے دوران تصاویر کے لیے پوز دیتے ہوئے (سوجیت جیسوال / اے ایف پی)

یہ پانچ فروری 1996 کی ایک سرد شام تھی۔ ڈی ایس پی مراری لال نے چائے کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے اوپر دیکھا اور بغل میں ڈنڈا دابے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا دفتر سے باہر نکلا۔ آج وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا آپریشن کرنے جا رہا تھا۔ ساڑھے چار سو سے زائد خواتین کو سمگلروں سے آزاد کروانا جو بمبئی میں دھندے کے لیے لائی گئی تھیں۔

ڈی ایس پی کی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے پولیس کی 13 گاڑیاں انجن سٹارٹ کر چکی تھیں۔ اس کے ڈرائیور نے چابی گھمانے سے پہلے اپنے صاحب کی طرف دیکھا تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ مراری لال الائچی کھا رہا تھا۔ اسے یہ بات سخت ناپسند تھی کہ اگر پولیس ریڈ میں اس کی موت ہو جائے تو اس کی لاش سے بدبو آئے۔  وہ کسی خطرناک آپریشن سے پہلے الائچی ضرور کھاتا۔

مراری لال کی قیادت میں ممبئی پولیس نے شہر کے بدنام زمانہ ریڈ لائٹ ایریا کماٹھی پورا میں چھاپا مارا۔ اس کارروائی میں 14 سے 30 سال کی عمر کی 456 خواتین کو بازیاب کرایا گیا، جنہیں انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے ذریعے جنسی غلامی میں دھکیلا گیا تھا۔ فلمی دنیا میں شاید آپ کو سنیل شیٹی بطور ہیرو کبھی پسند نہ آیا ہو مگر یہاں معاملہ الٹ ہے۔

بازیاب ہونے والی خواتین میں سے 128 کا تعلق نیپال سے تھا مگر سب کی سب شناختی دستاویزات سے محروم، نہ آگے جانے کی نہ پیچھے جوگی۔ شہریت کے ثبوت نہ ہونے کے باعث نیپالی حکومت نے انہیں واپس لینے سے انکار کر دیا۔ تصور کریں تب ان خواتین کی کیا حالت ہو گی؟

بیوروکریسی انڈیا کی ہو یا پاکستانی، کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی کام میں دخل دیں اور کھنڈت نہ ڈالیں۔ خواتین کے غیر یقینی مستقبل کی خبر ممبئی کے فلموں حلقوں تک پہنچی تو اس وقت کے ابھرتے ہوئے اداکار سنیل شیٹی متحرک ہوئے۔

ان کی ساس ویپلا قدری ’سیو دی چلڈرن‘ نامی ایک این جی او چلا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی ساس سے کہا کہ آپ انہیں اپنے ذمے لیں، اخراجات میں اٹھاؤں گا اور اس طرح ہم مل کر انہیں واپس ان کے خاندانوں تک پہنچاتے ہیں۔

بعد میں سنیل شیٹی نے ان کے لیے ہوائی جہاز کی ٹکٹوں کا بندوبست کیا اور تمام پیسے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے خرچ کیے۔

بالی وڈ کی دنیا میں اکثر شہرت کا جذبہ عاجزی پر غالب آ جاتا ہے۔ لیکن مجال ہے اس کہانی کے ہیرو نے کبھی میڈیا یا نجی محفلوں میں اس کا ذکر کرا ہو۔

یہ کہانی اس وقت منظرعام پر آئی جب ان خواتین میں سے ایک نے  The Forgotten Ones: Human Trafficking in Nepal  کے نام سے آنے والی دستاویزی فلم میں اپنی داستان بیان کی۔

خاتون نے اس تکلیف دہ وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ بازیابی کے بعد وہ دیگر نیپالی خواتین کے ساتھ قانونی اور سماجی مشکلات سے نبردآزما تھیں تب سنیل شیٹی آگے بڑھے اور تمام رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے انہیں محفوظ طریقے سے واپس پہنچایا۔

تب پہلی بار اس واقعے میں شیٹی کے نام کا انکشاف ہوا جس کے بعد ایک انٹرویو میں انہوں نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا، ’ہم یہ سب خود کو اچھا ظاہر کرنے کے لیے نہیں کر رہے تھے، اور ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان لڑکیوں کو دوبارہ کسی خطرے کا سامنا ہو، خاص طور پر جب مافیا اس معاملے میں شامل تھا۔‘

سنیل شیٹی نے جب بھی اس واقعے کا ذکر کیا تو انہوں نے خود سے زیادہ دوسروں کو کریڈٹ دینے کی کوشش کی۔ بالی وڈ ہنگامہ سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، یہاں سے نیپال جانے والی خواتین کو میرا نام اس لیے یاد رہ گیا کیونکہ میں فلم کی وجہ سے جانا پہنچانا چہرہ تھا۔ ’لیکن محنت بہت سے لوگوں کی تھی۔ پیسوں سے زیادہ حوصلے کی بات تھی کہ ہم نے کہا ان بچیوں کی مدد کریں گے اور اتنے بڑے مافیا سے ٹکر لیں گے۔‘

شیٹی کا یہ رسک بے لوث ہمدردی کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب انسان دوستی کے اقدامات اکثر کیمروں اور میڈیا کی موجودگی کے ساتھ کیے جاتے ہیں، شیٹی کا خاموشی اختیار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا مقصد صرف انسانیت کی خدمت تھا، نہ کہ شہرت۔

شیٹی اور نیپالی خواتین کی بازیابی کی کہانی سن کر ذہن راجندر سنگھ بیدی کے شاہکار ’لاجونتی‘ کی طرف جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1947 کی تقسیم کے بعد بے شمار خواتین اغوا کر لی گئیں۔ بیدی کے شاہکار افسانے میں دکھایا گیا ہے کہ سندر لال کی بیوی لاجونتی لاپتہ ہو جاتی ہے۔ طویل کوشش کے بعد وہ اپنی پیاری کو ڈھونڈنے میں کامیاب رہتا ہے، لاجو اچانک سے دیوی بن جاتی ہے مگر زندگی کی اجڑے دل میں پہلی والی رونق کبھی نہیں لوٹ سکتی۔

سندر لال کی ’لاجو‘ ہو یا نیپالی خواتین، سبھی لاجونتی کے پھول ہیں۔ بیدی کے الفاظ میں، ’انسانی دل کتنا نازک ہوتا ہے۔ ذراسی بات پر اسے ٹھیس لگ سکتی ہے۔ وہ لاجونتی کے پودے کی طرح ہے، جس کی طرف ہاتھ بھی بڑھاؤ تو کُمھلا جاتا ہے، لیکن اس نے اپنی لاجونتی کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں کوئی بھی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ وہ اسے جگہ بے جگہ اٹھنے بیٹھنے ، کھانے کی طرف بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔‘

اٹھارہ سالہ نیپالی خواتین بھی سندر لال کی ’لاجو‘ کی طرح پتلی شہتوت کی ڈالی جیسی نازک ہوں گی۔ دھوپ میں ان کا رنگ سنولا نہ بھی چکا ہو تو طبیعت ضرور بے قرار ہو گی۔

نیپالی خواتین کی بازیابی کا واقعہ ہو، انسانی سمگلنگ کی دیگر مکروہ کوشش، بیدی کا افسانہ سارے احساس اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

بیدی کا کمال دیکھیے، ’اس کا اضطرار شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ کراس کے بڑے سے پتے پر کبھی ادھر اور کبھی ادھر لڑھکتا رہتا ہے۔ اس کا دبلاپن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی، ایک صحت مندی کی نشانی تھی جسے دیکھ کر بھاری بھرکم سندر لال پہلے تو گھبرایا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا بوجھ، ہر قسم کا صدمہ حتیٰ کہ مارپیٹ تک سہ گزرتی ہے تو وہ اپنی بدسلوکی کو بتدریج بڑھاتا گیا اور اس نے ان حدوں کا خیال ہی نہ کیا، جہاں پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے۔ ان حدوں کو دھندلا دینے میں لاجونتی خود بھی تو ممد ثابت ہوئی تھی۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ